Friday, April 4, 2014

مختصر تعارف ائمہ حدیث صحاح ستہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر تعارف ائمہ حدیث صحاح ستہ
امام بخاریؒ ::: امام بخاری کا نام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ ہے ، آپ کی ولادت ۱۳؍یا ۱۶؍شوال المکرم ۱۹۴ھ ؁ جمعہ کے روز بعد نماز عصر ہوئی ،آپکی علم حدیث میں مہارت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا معزز لقب ملا ۔امام بخاری کا سب سے بڑا کارنامہ بخاری شریف ہے ،جو قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب کہی جاتی ہے ،اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ ہوا کہ امام بخاری اپنے استاذ اسحاق راہویہؒ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اسحاق کے شاگردوں میں یہ بات ہونے لگی کہ اللہ اگر کسی کو اعلی درجہ کی صحیح درجہ کی احادیث مختصراً جمع کرنے کی توفیق بخش دے تو کتنا بہتر ہوگا۔ اسوقت سے امام بخاری کے دل میں اس کام کے کرنے کا داعیہ پیدا ہوا ۔

چنانچہ آپ کے پاس اس وقت چھ لاکھ احادیث تھیں ،ان میں سے جو احادیث آپ کے پاس آپ کی رائے کے مطابق سند کے اعتبار سے اعلی درجہ کی تھیں ان کو جمع کردیا باقی کو ترک کردیا ۔
بخاری شریف میں تمام احادیث کی تعداد سات ہزار دو سو پچہتر ہے ،(۷۲۷۵) ہیں ،اور مکررات کو حذف کرکے تقریبا چار ہزار (۴۰۰۰)احادیث باقی رہ جاتی ہیں امام بخاری کی وفات ۲۵۶ھ ؁میں عید الفطر کی رات ہوئی ۔

امام مسلم ؒ :::آپ کا اسم گرامی مسلم بن حجاج ہے اور کنیت ابو الحسن ہے ، قشیری قوم سے ہیں اور نیشا پور آپ کا وطن ہے،آپ ۲۰۴ھ ؁ یا ۲۰۲ھ ؁ میں پیدا ہوئے ، آپ بچپن ہی سے طلب حدیث میں منہمک ہو گئے اور مختلف اسلامی ممالک کی طلب علم کے سلسلے میں خاک چھانی ،چنانچہ آپ نے عراق، و شام، مصر، و حجاز کے مشائخ سے خوب استفادہ کیا ،جب امام بخاری اپنی آخری عمر میں نیشا پور پہنچے تو امام مسلم بخاری سے ہی وابستہ ہو گئے اور پھر انکے اسقدر گرویدہ ہوگئے کہ ان کی وجہ سے اپنے استاذ امام ذہیلی کو چھوڑنا پڑا ۔

فن حدیث میں امام بخاری کے بعد آپ ہی درجہ ہے ،جزائری کے قول کے مطابق مسلم شریف کی احادیث کی تعداد مکررات کو حذف کرکے تقریباچار ہزار(۴۰۰۰) ہے ، اور مکررات کے ساتھ احادیث کہ تعداد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) ہے، ایک حدیث کی تلاش میں آپ اس قدر منہمک ہو ئے ،کہ اتنی زیادہ کھجوریں کھالیں کہ وہ آپ کے انتقال کا سبب بن گئی،چنانچہ آپ ۲۴ ؍یا ۲۶رجب ۲۶۱ھ ؁کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، مسلم شریف کے علاہ آپ کی تالیفات میں المسند الکبیر علی اسماء الرجال ،الجامع الکبیر علی الابواب ،کتاب العلل ،کتاب طبقات المحدثین وغرہ قابل ذکر ہیں ۔

امام نسائی :::آپ کا نام احمد بن شعیب بن علی ہے ،کنیت ابو عبد الرحمن ہے آپ خراسان کے شہر نساء کے رہنے والے تھے ،اس وجہ سے نسائی کے نام مشہور ہیں آپ کی پیدائش ۲۱۴ھ ؁ یا ۲۱۵ھ ؁ میں ہوئی آپنے بھی دیگر محدثین کی طرح طلب علم کی خاطر مختلف بلاد اسلامیہ کا رخ کیا ،جب آپ مشر بن سعید بلخی کی خدمت میں طلب علم کی خاطر حاضر ہوئے تو آپ کی عمرصرف پندرہ برس کی تھی آپ وہاں ایک زمانے سے زائد عرصہ مقیم رہے ،آپ امام حدیث اور فن جرح و تعدیل کے ماہر تھے ،آپ کی تالیف نسائی شریف صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے ،بعض لوگوں نے نسائی کو مسلم اور کچھ لوگوں نے بخاری سے بھی زیادہ صحیح قرار دیا ہے،لیکن یہ اقوال درست نہیں ہیں ،آپ کی وفات نہایت مظلومانہ طریقہ پر ہوئی تھی،آپ ۳۰۳ھ ؁میں دمشق تشریف لے گئے وہاں آپ سے امیر معاویہؓ کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے حضرت علیؓ کو امیر معاویہؓ سے افضل قراردیالوگوں نے اس جرم کی پاداش میں آپ کو اس قدر زد وکوب کیا کہ آپ کی موت واقع ہو گئی ،امام دار قطنی کا قول ہے کہ جب ’’نسائی ‘‘ دمشق پہنچے تو لوگوں کے نرغے میں پھنس گئے،اسی حالت میں یہ کہا کہ مجھے مکہ لے چلو چنانچہ آپ ابھی راستے ہی میں تھے کہ وفات پا گئے ، آپ کو صفا و مروہ کے درمیان دفن کیا گیا ،آپکی وفات ۳۰۳ھ ؁ میں بعمر ۸۸؍یا ۸۹؍ سال میں ہوئی ۔

امام ابو داؤد ::: آپ کا نام سلیمان اشعث ہے اور کنیت ابو داؤد ہے آ پ کی پیدائش ۲۰۲ھ ؁میں ہوئی ،آپ سجستان کے رھنے والے تھے اس وجہ سے آپ کو سجستانی کہا جاتا ہے ،آپ نے طلب علم کی خاطر عراق، خراسان ،شام ، مصر،کے علماء کے پاس جاکر استفادہ کیا ،ابو داؤد کے اساتذہ میں احمد بن حنبل ؒ ، عثمان بن ابی شیبہ، قتیبہ بن سعید ،و دیگر ائمہ حدیث ہیں ۔

جب کہ آپ کے شاگردوں میں عبد الرحمان نسائی ،ابو علی اللؤلوی ،اور دیگر بے شمار لوگ ہیں ،مشہور ہے کہ سنن ابی داؤد کا درجہ کتب ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے ،لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ ابو داؤد صحیحین و نسائی کے بعد چوتھے نمبر پر ہے ،کیونکہ امام نسائی کی شرائط ابو داؤد کی شرائط سے اعلی ہیں ابو داؤد کا اصلی وطن بصرہ ہے ، بعد میں بغداد بھی تشریف لے گئے اور بغداد میں اپنی عظیم الشان کتاب ’’ابو داؤد‘‘تصنیف فرمائی آپ کی وفات بصرہ میں ۲۷۵ھ ؁ میں ہوئی ۔ 

امام ترمذی ؒ ::: آپ کا نام محمد بن عیسٰی بن سورۃ بن موسٰی اور کنیت ابو عیٰسی ہے ، شہر ترمذ کی نسبت کی وجہ سے ترمذی کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ بہت بلند پایا محدث ، مایہ ناز فقیہ اور اما جرح و تعدیل ہیں ، آپ کے وثوق علم کی شہادت کے لیے آپ کی تصنیف ’’ترمذ ی شریف ‘‘ کافی ہے ، جس کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ اسمیں حدیث کی تضحیح وتحسین تعلیل ،تضعیف علماء سلف و خلف کے بیان،مجتہد ین کے مذاہب اور انکے دلائل کا وافر حصہ موجود ہے ۔ آپ کے اساتذہ میں قتیبہ بن سعید ،محمود بن غیلان ،محمد بن بشار ، وغیرہ خاص طور پر ذکر کئے گئے ہیں :جبکہ آپ کے تلامذہ میں محمد بن احمدحشیم بن کلب کافی مشہور ہیں ،۔رویات حدیث میں امام ترمذی ؒ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو واسطے ہیں ،وہ کم از کم تین ؍اور زیادہ سے زیادہ دس ہیں آپ کی پیدائش ۲۰۹ھ ؁میں ہوئی ،جبکہ آپ کی وفات ۲۷۹ھ ؁ میں ہوئی ، جامع ترمذی کے علاوہ کتاب الاسماء والکنی،کتاب الشمائل اور کتاب الزھد قابل ذکر تصانیف ہیں ،

امام ابن ماجہؒ :::آپ کا نام محمد بن یزید بن ماجہ قزوینی اور کنیت ابو عبد اللہ ہے آپ قزین کے رہنے والے تھے جو عراق و فارس کا ایک شہر ہے ،آپ ۲۰۹ھ ؁ میں پیدا ہوئے ،حددیث نبوی کی کتابت و تحصیل کی خاطر ’’ترکی‘‘نامی شہر اور بصرہ و کوفہ و بغداد و شام و مصر کا سفر کیا ، بکثرت ائمہ حدیث سے درس لیا ،آپ کے اساتذہ میں ابو بکر بن شیبہ اور اصحاب مالک کافی مشہور ہیں ۔جب کہ آپ کے تلامذہ میں ابن سیبویہ،اسحاق بن محمد ، سلیمان بن یزید ،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔آپ کی تصنیف ابن ماجہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لیکن اس کتاب میں منکر بلکہ موضوع روایات بھی دخل ہیں ،لہٰذاصحح ستہ میں اسکا درجہ اخیر ہے ،سنن ابن ماجہ میں تقریبا چار ہزار احاادیث ہیں آپ کی وفات ۲۷؍رمضان ۲۷۲ھ ؁ بروز دو شنبہ ہوئی ۔

Thursday, April 3, 2014

مختصر تعارف ائمہ اربع

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
امام ابو حنیفہؒ :::آپ کا نام نعمان ہے ابو حنیفہ کنیت ہے ، والد کا نام ثابت ہے ،اور دادا کا نام زوطاس ہے ،آپکے دادا فارس کے رہنے والے تھے ، اسلام لاکر مکہ معظمہ ہجرت کرکے آئے ۸۰؍ہجری میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیدائش ہوئی ،تقریبا بیس سال کی عر تک علم کی طرف کچھ خاص توجہ نہ دیکر کاروبار میں مصروف رہے ،بیس سال کی عمر میں پہلے کوفہ جاکر فقہ کی تعلیم حاصل کی ، پھر حدیث کی تعلیم حاصل کی ،اسکے بعد بصرہ کے تمام محدثین کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرکے علم حدیث میں مہارت کاملہ حاصل کی ،پھر مکہ اور مدینہ کے شیوخ سے تعلیم حاصل کی ،آپ نہایت بلند پایا فقیہ مجتہد اور محدث تھے ، آپ کی طرف حدیث سے کم واقفیت کا الزام بہتان تراشی یا حقیقت سے بے خبری کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ آپ کہ مجتہد مطلق ہونے پر امت کا اجماع ہے اور مجتہد بغیرحدیث کے کامل علم کے ہو جائے ممکن نہیں ، آپ کی وفات ::’’۱۰ رجب؍ ۱۵۰ھ ؁میں ہوئی ،چارو ائمہ میں تنہا امام ابو حنیفہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپکی صحابی رسول حضرت انسؓ اور حضرت ابو طفیلؓ عامر بن واثلہ سے ملاقات ہے ،’’ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘آپ کے اساتذہ میں حضرت حماد، امام شعبی ،عدی بن ثابت ،موسی بن عائشہ ،عاصم بن سلیمان ،عطا بن ابی رباح ،حضرت باقر ،اور حضرت جعفر ، بہت مشہور ہیں ۔
امام مالکؒ :::آپ کا نام مالک بن انس ہے آپ کے پر دادا صحابی رسول تھے امام مالک ۹۳ھ ؁میں مدنہ میں پیدا ہوئے اور علمائے مدینہ سے علم حاصل کیا آپ نے ۱۷؍برس کی عمر سے درس حدیث دینا شروع فرمادیا تھا ۱۴۷ھ ؁میں امام مالک سخت آزمائش سے گزرے آپ کو کوڑوں سے پیٹ گیا ،آپ کے ایک فتوے کی وجہ سے منصور کے عامل نے جو مدینہ میں متعین تھا ،آپ کو ستر(۷۰) کوڑے لگوائے ،جب خلیفہ منصور کو معلوم ہوا تو اسنے عامل کو برخواست کردیااور امام مالک سے معذرت کیاامام مالک مدینہ میں کمال ادب کی وجہ سے نہ تو استنجا کرتے تھے اور نہ ہی سواری پر سوار ہوتے تھے ،آپ کی مایہ ناز کتاب مؤطا کو آپ کے زمانے میں ہی حد درجہ شہرت مل چکی تھی اور آپ کے وصال کے بعد بھی یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل رہی ہے ،آپ کی وفات ۱۷۹ھ ؁ مدینہ میں ہوئی اور بقیع کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا ۔
امام شافعیؒ ::: آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابو عبد اللہ ہے آپ شافعی کے نام سے مشہور ہیں ،آپ مقام غزہ میں ۱۵۰ھ ؁ میں پیدا ہوئے ،والد بچپن ہی میں فوت ہو گئے ،دو سال کی عمر میں والدہ آپ کو مکہ لے آئیں آپ وہیں پلے بڑھے ،تیرہ سال کی عمر میں آپ امام مالک ؒ کے پاس آکر مقیم ہو گئے ،امام مالکؒ سے خوب استفادہ کیا ۱۹۹ھ ؁میں مصر تشریف لے گئے اور اخیر عمر تک وہیں رہے ،آپ نے بذات خود اپنے مسلک کو پروان چڑھایا ،اپنی کتابیں آپ نے خود لکھیںیا اپنے تلامذہ سے لکھوائیں ،۲۰۴ھ ؁ مصر میں آپ کی وفات ہوئی 
امام احمد بن حنبلؒ :::آپ کا ناماحمد اور کنیت ابو عبد اللہ ہے ، آپ امام الائمہ اور حافظاالملۃ کے لقب سے ملقب تھے ،۱۶۴ھ ؁میں بغداد میں پیدا ہوئے بچپن سے قاضی ابو یوسف کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے ،جب امام شافعیؒ بغداد تشریف لائے توآپ ان سے وابستہ ہو گئے ،آپ بلند پایا محدث اور فقہ کے بے مثال استاذ تھے ،آپ کے اساتذہ میں یحیٰ بن قطان ،سفیان بن عیینہ،امام شافعیؒ وغیرہ بہت مشہور ہیں ،جبکہ آپ کے تلامذہ میں امام بخاری ،امام مسلم ، عبد الرزاق اور وکیع قابل ذکر ہیں ،۲۴۱ھ ؁بغداد میں جمعہ کے روز آپ کی وفات ہوئی ،آپ کی مشہور تصنیف مسند احمد محدثین کے نزدیک آپ کا عظیم الشان کارنامہ شمارہوتا ہے ۔
(نوٹ) :میں نے اس مقدمہ میں حد درجہ اختصار کی کوشش کی ہے ۔لہٰذاان مباحث کی جو حضرات تفصیل دیکھنا چاہیں وہ فن کی متعارف و متد اول کتابوں کی طرف مراجعت کرلیں 
میں نے اس مقدمہ کو مرقات ، درس ترمذی ،تاریخ حدیث ومحدثین،تدوین حدیث ،حجیت حدیث ،اور مظاہر حق سے اسفادہ کے بعد لکھا ہے ،لہٰذااگر قارئین کو اس میں نیا پن محسوس نہ ہو تویہ کوئی حیرت کی بات نہیں ۔( ماخوذ فیض مشکوۃ۔شرح مشکوۃ)

Sunday, November 10, 2013

شوکوہ ،جواب شکوہ ۔

انتخاب
شکوہ
ہم سےس پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھرکہیںمسجود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر
مانتا پھر کوئ ان دیکھے خدا کو کیوں کر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئ نام تیرا ؟
قوت بازوۓ مسلم نے کیا کام تیرا !
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئ
اور تیرے لیۓ زحمت کش پیکار ہوئ
کس کی شمشیر سے جہاں گیر دار ہوئ
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئ
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوۓ رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے
یہ شکایت نہی ،ہیں ان کے خزانے معمور
نہی محفل میں جنھیں بات بھی کر نے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور وقصور
اور بیچارے مسلمان کو صرف وعدہ حور
اب وہ الطاف نہی،ہم پہ عنایات نہی
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہی
امتیں اور بھی ہیں،ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجزوالے بھی ہیں،مست مۓ پندار بھی ہیں
ان میں،کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہیں،ہشیاربھی ہیں
سیکڑوں ہے کہ تیرے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے شانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
علامہ اقبال
جواب شکوہ
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے؟
عالم کیف ہے داناۓ رموز کم ہے
ہاں،مگرعجزکےاسرار سےنامحرم ہے
نازہےطاقت گفتار پے انسانوں کو
بات کر نے کا سلیقہ نہی نا دانوں کو
جن کو آتا نہی دنیا میں کوئ فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پر واۓ نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہوں نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جاۓ جو صنم پتھر کے
کیا کہا؟بہر مسلمان ہے فقط وعدۂحور
شکوہ بے جابھی کرے کوئ تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطرہستی کا ازل سے دستور
مسلم آیئن ہواکافرتوملےحوروقصور
تم میں حورں کا کوئ چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂطورتو موجودہے موسی ہی نہیں
کون ہے تارک آیئن رسول مختار
 مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوںمیں سمایاہے شعاراغیار
ہو گئ کس کی نگہ طرزسلف سے بیزار
قلب میں سوزنہیں،روح میں احساس نہی
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہی

علامہ اقبال

Friday, December 2, 2011

Maa


Maa
maut ki aagosh mein jab thak key soo jattiii hain maa
tab kahii jaakar sukoon thora sa paa jaati hain maaaa

fikar mein bachoo ki kuch istarah ghul jaati hain maa
no jawan hotey howey bhorii nazar aati hain maaa

eik hi hasraat ko apney azm-o-istaqlal sey
aansoo sey gusl dekar kudh hi dafnaati hain maa

aurhtii hain gurbatoo kaa khud yeh boseeda kafan
chahatoo ka perahan bachey ko pehnaatii hain maa

bhooka rehnay hi nahi deti yateemoo ko kabhi
jaaney kis kis sey kahan sey maang kar laati hain maa

rooh key rishtey ki yeh gheraiyan tou dekhayey
chot lagtii hain hamarey aur chilaatii hain maaa

kab zarorat hoon meray bachey ko itnaa soch kar
jaagti rehtii aaankhen aur soooo jaati hain maaa

haadyoon ka ras pila kar apney dil key chain koo
kitnii raatey mein tou khalii paet sojaati hain maaa

jaaney kitnii barf si raatoo mein aisaa bhi howa
bacha tou chatii pey hain gelay mein sojatii hain maa

jab khiloney ko machaltaa hain koi gurbat ka phool
aaansoo key saaz par bachey ko behlatii hain maaa

fikar mein shamshan key aakhir chatanoo ki tarah
jaisay sookhii lakriaa istraha jaal jaati hain maaa

apnii aanchal sey gulabii aansoo ko poonch kar
deir tak gurbat pey apnii askh barsatii hain maa

samney bachoo key khush rehtii hain har ek haal mein
raat ko chup chup kay lekin askh barsatii hain maaa

pehley bachoo ko khilaatii hain sukoon-o-chain sey
baad mein jo kuch bacha who shauq sey kahti hain maa

Mangtiii bhi nahi apney liyey allah sey
Apney bachoo key liyey daman ko phelatii hain maa

Janey anjaney mein hojayey jo bachey sey kasoor
Eik anjaani saza key dukh sey tarhaaati hain maa

Har ibadat har mohabbat mein nihah hain eik garz
Be garz be losss har khidmat ko kar jaati hain maa

Apney bachoo ki baharey zindagi key wastey
Aansooo key phoool har mosaaam mein barsatii hain maa

Bazooo mein kich key aaajaye gi kaisay qainat
Apney bachey key liyey bahoon ko pehlaatii hain maaa

Eik eik hamley sey bachey ko bachaney key liyey
Dhaaal bantii hain kabhi talwar ban jaati hain maaa

Pheley dil ko saaf karkey khoob apney khoon sey
Dharkanoo par kalmae-tauheed likh jaati hain maaa

Safha-e-hastii pey likhtii hain who usool-e-zindagi
Isi lyey ek maqtab-e-islam kehlatii hain maaa

Usney duniyaa ko diyey masoom rehbar islyey
Azmatoh mein saani-e-quran kehlatii hain maa

Jab perashanii mein ghir jaatey hain hum pardes mein
Aaansoo ko poochney khawaboo mein aajatii hain maa

Aisa lagta hain key jaisa aagaye firdoos mein
Daal kar bahey galey mein sar ko sehlatii hain maa

Agaya gar waqt muskhill apney dil key chain par
Qabr mein hotey howey bhi ashq barsatii hain maa

Baad mar jaaney key phir betay ki khidmat key liyey
Bhes betii ka badal kar ghar mein aaajati hain maaa

Door hojatii hain sari umr ki us dam thakan
Bihah karkey betay kaa jab ghar bahoo lati hain maa

Dekh letay hain nazar jis waqt betay aur bahoo
Ajnabi apney hi ghar mein haayey ban jaati hain maa

Allah allah bhool kar eik eik satam ko raat mein
Pootii pootey sey shikastaaa dil ko behlatii hain maa

Beta kitnaa hi bura hoon par padosan key huzoor
Rok kar jazbaat ko betay key gun gaati hain maa

Shadiyaan karkey jo bachey jaa basey pardes mein
Khat sey ya tasweer sey phir dil ko behlatiii hain maa

Apney seenay par rakhey hain qainat-e-zindaqiii
Yeh zameen is wastey hain dost kehlatii hain maa

Zindagani key safar mein gardishoo ki dhooob mein
Jaab koi saaya nahi miltaa tou yaad aaatii hain maa

Muflisi Bachey ki zid par jab utha letii hain haath
Jaisay mujrum ho koi istrhah sharmatii hain maa

Lot kar wapis safar sey jab bhi ghar aatey hain hum
Daal kar bhahey galey mein sar ko sehlatii hain maa

Dair hojatii hain ghar mein aaney mein aksar jab hamey
Rait par machlii ho jaisay aisay ghabratii hain maa

Mart-e-dam asaka bacha naa ghar par deir sey
Apni donoo kutliyay chokhat par rakh jaati hain maa

Apni pehloo mein lita kar aur totey ki tarah
Eik , bara paanch chodaa hum ko sikhlaati hain maa

Paar kehtey hain kissey aur mamta kia cheez hain
Koi un bachoo sey poochey jin mar jaati hain maa

Saaal bhar mein , ya kabhi , haftey mein jumaraat ko
Zindagi bhar ka silaa eik fatiha paa ti hain maaa

Martaba hoo maa ka zahir kis liyey firdoos sey
Apney bachoo key liyey poshaq mangwatii hain maa

Ghar sey jab pardes jaata hain koi noor-e-nazar
Hath mein quran lekar dar pey aajatii hain maa

Dekey bachey ko zamanat mein reza-e-paak ki
peechay peechay sur jukhayey door tak jaati hain maa

kaaptiii awaaz sey kehtii hain betaa alwidaaa
samnaa jab tak rahey hathooo ko lehratii hain maa

yaad aataa hain shab-e-aashoor ka karyal jawan
jab kabhii uljhiii howi zulfoo ko suljhatii hain maa

sub sey pehlay jaaan dena fatima(a.s) key laal par
raat bhar aun-o-mohamed ko yeh samjhatii hain maa

allah allah intehah dekh sabr-e- laila aur husain (a.s)
baap ney khainchii sina , seeney ko sehlatii hain maa

yeh bata saktii hain humko bus rubab(a.s)-e-khasta tan
kis tarah bin doodh key bachay ko behlaati hain maaa

shimr key kanjar sey yaa sookhey galey sey poochiyey
maa idhar sey nikaltaa hain udhar aaati hain maaa

jab talak hain yeh hath hain hamsheer be parda na hoon
eik madar bawafa betay sey farmatii hain maaa

aisa lagta hain kissi maqtal sey ab bhi waqt-e-asr
ek buridaa sar sey zyada pyasaaa hoon sada aati hain maa

no jawan beta agar dam tor dein aagosh mein
zindaqii bhar sur ko diwaroo sey takraatii hain maa

lash par betay key parhtii hain jawanii marsiaaa
shukr ka sajda us aalim mein baja laati hain maa

dei kar apney laal ko islam ki aaagosh mein
good khalii phir so-e-jaanat palat jaati hain maa

fatima(a.s) key laal par qurbaaan karney key liyey
baandh kar sehra jawan betay ko samjhatii hain maa

apney gam ko bhool kar rotey hain jo shabbir(a.s) ko
unkey askhoo key liyey jaanat sey aajatii hain maaa

Thursday, December 1, 2011

عقیدہ اہل سنت والجماعت علمائے دیوبند