Tuesday, August 30, 2011

انعام کی رات

انعام کی رات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عیدکی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں، راستوں کے سروںپر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے علاوہ ہرمخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والاہے اور بڑے سے بڑے قصورکو معاف کرنے والاہے۔
(

رمضان کی مبارک ساعتوں میں محنت کرنے والوں کو مبارک ہو، رمضان کی راتوں میں قیام کرنے والو، قرآن سننے والو، دن کو روزے رکھنے والو، گناہوں سے بچنے والو ، نیکیوں کی دوڑ لگانے والو، اللہ اللہ کی صدائیں لگانے والو خوش ہو جاؤ ! انعام کی رات آگئی ہے۔اللہ تبارک تعالیٰ کے مزدوروں کو مزدوری ملنے کا وقت آ گیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس رب کریم کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ‘ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اوربندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔ دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستّاری کرتا رہوں گا۔ (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجروثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (رواہ ابوالشیخ ابن حبان فی کتاب الثواب)
لیکن ذرا غور کیجئے!ذرا تصور کیجئے!
ایک شخص اپنی پوری زندگی کی پونجی ایک عالیشان مکان اورمحل بنانے پرصرف کردے اور جب خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے بننے والا اس کاخوبصورت محل تیار ہوجائے تویکایک وہ شخص اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہوئے اس محل کوگرانے پرکمربستہ ہوجائے۔۔۔کیا ایسے شخص کو ہوشمندوعاقل سمجھاجائے گا۔۔۔کیااسے پاگل اور مجنون نہیں سمجھاجائے گا۔۔۔ایک طالب علم سال بھرامتحان کی تیاری کرے‘دن رات کاآرام ‘چین‘ نینداورسکون اپنے اوپر حرام کرے‘ بالآخر اللہ اللہ کرکے وہ کمرۛ? امتحان میں داخل ہو‘ بڑی تندہی ‘محنت او ر کامیابی سے وہ اپناپیپرحل کرے لیکن اچانک وہ اپناساراحل شدہ پرچہ پھاڑ کرکمرۂ امتحان سے باہر نکل آئے اور بلاوجہ، بے لگام اچھلنا کودنا‘ناچناگانا اورہنگامہ کرنا شروع کردے۔۔۔ ایسے طالب علم کوکیاکہاجائے گا؟۔۔۔کیااسے بے وقوف اور دیوانہ نہیں کہاجائے گا کہ اس نے اپنے سارے سال کی مشقت اور خونِ جگرکی محنت پریکلخت پانی پھیردیا؟۔۔۔ایک مالی ایک پودے کوشب وروزمحنت سے سینچے‘گرمی ‘سردی اور دھوپ سائے کی پرواہ کئے بغیروہ اس پودے کی پرورش کرے اورجب یہ پودا ایک تناور درخت بن جائے اور پھل دینے کے قریب آجائے تو مالی کلہاڑا لے کر اس درخت کوکاٹنے پرتل جائے۔۔۔ ذرا سوچئے اسے کیاکہاجائے گا !۔۔۔ کیا دنیا میں ایسے انسانوں‘ ایسے طالب علموں اور ایسے مالیوں کا تصورکیاجا سکتا ہے؟ کیاایسے انسا ن دنیامیں موجود ہیں یاموجود ہوسکتے ہیں؟جی ہاں! ہمارا تجربہ اورمشاہدہ بتاتاہے کہ دنیامیں ایسے انسان موجودہیں۔ البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسے انسان دنیامیں بہت کم ہوتے ہیں، شاذونادر ہوتے ہیں، آٹے میں نمک کے برابرہوتے ہیں۔
لیکن یہ کیا یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہے، ایسی مجنونانہ حرکتیں کرنے والوں کی اتنی زیادہ تعداد ۔ذرا اپنے اردگرد دیکھئے یہ کیاہورہاہے؟ کوئی ہنگامہ برپاہے،کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی،ایک ہجوم ہے،انسانوں کاسمندر ہے، چکاچوند روشنیاں ہیں، آنکھوں کوشرم سے پانی پانی کردینے والے مناظر ہیں، یہ کون ہے؟ حوّا کی بیٹی ہے،اسلام کی بیٹی ہے،مسلمان کی بیٹی ہے۔ ارے بھئی !ابھی کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے ‘یہ شرم وحیاء کی پتلی تھی، ایمان میں سرتاپا ڈوبی تھی، صوم وصلوٰۃ کے زیور سے لدی تھی، نظریں شرم سے جھکی تھیں، پردہ و حجاب میں لپٹی اور سمٹی تھی۔ لیکن آج اسے کیا ہوا۔ یہ چاند نکلتے ہی اس پر کیا جنون چھا گیا، کیا اس کاایمان ہی رخصت ہوگیا؟ یہ پردہ ‘یہ حجاب کہاں گیا؟ آوارہ مردوں کے ہجوم میں اس کا کیاکام،ارے یہ کس کی بہن ہے اس نے توکبھی اپنا ہاتھ کسی غیرمرد کونہ دکھایاتھا اوراب اسے کیاہوا ایک غیرمرد کواپنا ہاتھ پکڑارہی ہے ۔ محض اس لئے کہ اس کے ہاتھوں پرمہندی لگادی جائے۔ اور ذرا ادھردیکھئے ۔ اسے کیا ہوا؟ محرم مردوں کواپنے بازو نہ دکھانے والی نامحرموں کو اپنے بازوتھمارہی ہے، تاکہ اسے چوڑیاں پہنادی جائیں۔ اوریہاں مسلمان بہنیں یہ کیاکررہی ہے، بیوٹی پارلر میں گھسی ہے‘اپنے چہرے کوبگاڑ رہی ہے‘ فطرت کو مسخ کررہی ہے ‘کہیں پلکیں بدل رہی ہیں توکہیں بھنویں، کہیں جسم سے بال اکھڑوانے کے لئے تھریڈنگ ہورہی ہے توکہیں فشل اور ماسکنگ اورکہیں مصنوعی ناخن لگ رہے ہیں، کیا یوں اللہ کے دئیے ہوئے قدرتی اورحسین چہرے اور جسم کوپسندنہ کرنے والی اللہ کی رحمت کی مستحق ہوسکتی ہے؟ کیا انہیں اللہ کے نبی کایہ انتباہ بھول گیاہے۔۔۔جس میں آپ نے فرمایاتھا۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ان عورتوں پر جومردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اوران مردوں پرجوعورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور جوجسم گودتی اور گدواتی ہیں اورجواپنے حسن میں اضافہ کے لئے اپنے دانتوں میں خلا پیدا کرتی ہیں اور اپنی بھنووں اور پلکوں کوکترواتی ہیں اورجواپنے بالوں کے ساتھ نقلی بال لگواتی یااضافہ کرتی ہیں‘ وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں۔‘‘ اورہاں!ذرا ان مسلمان نوجوانوں کو بھی دیکھئے ! مہینہ بھر صوم وصلوٰۃ کے پابندرہنے والے ،پانچوں وقت مسجدوں کو آباد کرنے والے، ایک ماہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے والے، اعتکاف کے کرنے والے ، چاند رات آتے ہی یوں شتر بے مہار ہوگئے جیسے ایمان ان کوچھوکر بھی نہیں گیاتھا، کہیں عورتوں پر ٹکٹکیاں لگائی ہوئی ہیں توکہیں ان پر آوازے کس رہے ہیں، کہیں شیطان کی آواز ، موسیقی کی دھنوں پر بڑے بڑے ڈیک لگاکر ناچ کودرہے ہیں‘ شریفوں اور مریضوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ، توکہیں فلموں اور ڈراموں میں مست ہیں، کہیں سگریٹوں کے مرغولے بنارہے ہیں، توکہیں شراب کے جام لٹائے جارہے ہیں۔ کہیں ون ویلنگ کے کرتب دکھاکراپنی جوانیوں کو موت کالقمہ بنارہے ہیں ۔ اور یہ فحش عید کارڈوں کے اسٹالوں پر کون کھڑا ہے؟ اسلام کی بیٹیاں بھی اور بیٹے بھی۔ پھرسب سے بڑے المیے اور ستم کی بات یہ ہے کہ عیدکارڈ بھی ایسے ملک کے اداکاروں اور کھلاڑیوں کے جوہمارا ازلی دشمن ہے۔
کیا یہ سب اپنی محنتوں کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ جنونیت اور حماقت نہیں؟ خدارا کچھ سوچیں ! ہم رمضان میں بنی ہوئی ایمان کی یہ عمارت عید کی ایک ہی رات میں کیوں زمین بوس کرنا چاہتے ہیں؟
اس کے برعکس ہمارے اکابرین اور بزرگوں کا طرز عمل تو یہ تھا:
حضرت عامر ابن قیس کے بارے میں مروی ہیکہ وہ اختتام رمضان پر رونے لگے ،تو لوگوں نے کہا آپ کیوں رورہے ہیں ؟ تو فرمایا قسم بخدا متاع دنیا کے ضائع ہونے پر نہیں رورہا ہوں ، میں تو روزے میں پیاس کی شدت پر اور ٹھنڈی رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونے کی مشقت کے ہاتھوں سے چلے جانے پر رورہا ہوں، یعنی روزہ تراویح اور دیگر رمضانی عبادت اب نہ ہونے کا افسوس ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے ،ہائے کاش مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہوگئی ، تو میں انہیں مبارک باد دیتا ، اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے ، جس کی عبادتیں قبول نہ ہو سکی اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے ۔
ایک بزرگ کو عید کے دن لوگوں نے غم زدہ دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ خوشی اور مسرت کے دن آپ غم زدہ کیوں نظر آرہے ہیں؟تو فرمایا ، بات تو صحیح ہے کہ یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے ، مگر مجھے اس بات نے غم میں ڈال رکھا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہو ں جس نے مجھے روزے اور دیگر عبادات کا حکم دیا ، مگر مجھے نہیں علم کے میرے یہ اعمال عنداللہ مقبول بھی ہوئے یا نہیں؟۔
بشر حافی رحمۃاللہ سے کسی نے دریافت کیا ، کہ حضرت بہت سے مسلمان ایسے دیکھے گئے ،جوصرف رمضان المبار ک میں خوب عبادت اور مجاہدہ کرتے ہیں اور بقیہ سال بھر پھر کچھ نہیں ، تو آپ نے فرمایا ، ایسااس لئے کہ انہوں نے اللہ کو کماحقہ نہیں پہچانا ، اور عارضی صرف رمضان المبارک کی حد تک کی عبادت کس کام کی؟ اصل عبادت اور حقیقی صلاح وتقویٰ تو یہ ہے کہ مسلمان سال بھر عبادت وریاضت ومجاہدہ ومحاسبہ میں لگارہے ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ انعام کی اس رات کو اس طرح گزاریں کہ انعام دینے والا ہم سے خوش ہو۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کیلئے ) جاگے۔ اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی۔ لیلۃ التزویہ (آٹھ ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ العرفہ (۹ ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ النحر (۰۱ ذی الحجہ کی رات)، شب برأت (پندرہ شعبان المعظم کی رات)، عید الفطر کی رات۔
اس کے علاوہ ہمارا طرز عمل رمضان کے بعد بھی وہی ہونا چاہیے جو رمضان میں تھا۔ جس طرح ہم نے پانچوں نمازوں کا اہتمام کیا ہم یہ عہد کریں یہ نیت کریں ، اب انشاء اللہ رمضان کے بعد بھی ہم اس کا پورا اہتمام کرینگے ، جیسا کہ رمضان میں اہتمام کیا ۔ جس طرح رمضان المبارک میں آپ نے گناہوں سے اجتناب کیا یا کم از کم کوشش کی رمضان کے بعد بھی وہی اہتمام باقی رکھیں ۔ جس طرح رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد کا اہتمام کیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی تہجد،چاشت اور اشراق کا اہتمام کیا جائے، اور اپنے آپ کو اسی کا عادی بنایاجائے تاکہ بے شمار فضائل واجر عظیم سے مالا مال ہو سکیں۔ جب رمضان المبارک میں ہم نے تلاوت قرآن کا اہتمام کیا ہے اور کئی ایک قرآن ختم کیا ہے ،رمضان کے بعد بھی اہتمام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے رہیں ۔ جس طرح رمضان میں زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے کا اہتمام کیا، رمضان کے بعد بھی اس کا پورا اہتمام کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کا کوئی معمول رمضان المبارک میں کرنے رہ جاتا تو آپ شوال میں اس کی قضا کرلیتے تھے؛ مثلا: ایک مرتبہ کسی وجہ سے رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف نہ کرسکے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نو شوال میں اس کی قضا کی بل کہ شعبان میں چھوٹے ہوئے عمل کی قضابھی شوال ہی میں کرنے کی فرماتے( بخاری ومسلم )
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ رمضان کے قضا روزے کی قضا بھی شوال میں شوال کے روزے رکھنے سے پہلے کرلیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا اور خصوصی انعامات سے نوازے۔ (آمین
بیہقی فی شعب الایمان:۳۵۴۰، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ)

Saturday, August 27, 2011

مصافحہ کا مسنون طریقہ


مصافحہ کا مسنون طریقہ
دین اسلام ایک جامع مذہب ہےجو زندگی کے تمام شعبوںمیں انسان کی صحیح رہبری کرتا ہے ،انسانی زندگی کا کوئ مسلھ اس کی دسترس سے باہر نہی ہے ،عبادات ہو یا،سیاسیات ،معاملات ہو یا معاشات،اس کی تعلیمات نے ہر سطح سےانسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیاہے ، نیز اسلامی تعلیمات ہی کی یہ خوبی ہے اس نے انسانیت کو ان تمام کاموں کی تعلیم اور تر غیب دی ہے جو عام ان سانوں کے لیۓ راحت وسکون اورالفت و محبت کا زریعہ بنے اور ان تمام کاموں سے روکا اور منع کیا ہے جو دوسروں کی تکلیف اور اذیت کا باعث ہو-
اسلام کی انہی تعلیمات میں ایک سلام اور مصافحہ بہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےآپس میں سلام کو عام کر نے کا حکم دیا ہے اور اس کو محبت کا زریعہ فرما یا ہے اور سلام ہی کا تتمہ مصافحہ بھی ہے ،اس کا ثبوت بھی احادیث میں موجود ہے –حضرت قتادہ رضی اللہ عنہنے فرمایا:کانت المصافحۃ فی اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم  (بخاری2/926)سلام اور مصافحہ کہ بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں بیان کیۓگیۓ ہیں- حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا:ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفرلھماقبل ان یتفرقا- (رواہ احمدوالترمذی وابن ماجہ)
ان دونوں روایتوں سے یہ بات واضح ہو گئي کہ مصافحہ کر نا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے اور حضرات صحابہ کا طریقہ رہا ہے ، اسی لیۓ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں جو بذات خود محبت ، اتفاق اور مان کا پیغام ہے اور سلام کے ساتھ مصافحہ بھی کرتے ہیں ،سلام اور مصافحہ کر نے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے – مسلمان ہمیشہ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے آیۓ ہیں ، اس لیۓ اس پر زیادہ تفصیل کی ضرورت نہی ہے، لیکن سلام کے بعد مصافحہ کے طریقہ میں اس زمانے کہ بعض یاروں نے اختلاف پیدا کر دیا جو سلام اور مصافحہ مسلمان اظہار محبت کے لیۓ کیاکرتے تھے ،بعضوں کو یہ الفت وہ محبت بھی دیکھی نہ گيئ اس کو بھی آپسی نفرت کا زریعہ بنا دیا گيا،اہل اسلام میں دونوں ہاتوں سے مصافحہ متوارث تھاکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرات صحابہ وہ تابعین کا یہی معمول تھا – حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا :
باب المصافحۃ،اسمیں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنھ  فرماتے ہیں:
علمنی النبی صلی اللہ علیھ وسلم التشھدوکفی بین کفیھ۔(بخاری2/926)
مجھے آپ صلی اللہ علیھ وسلم  تشھد سکھایا،اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیھ وسلم  کے دونوں ہاتوں کے درمیان تھا-
امام بخاری رح نے اس روایت کو مصافحہ کے باب میں نقل کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا تھا کہ وضاحت کے لیۓباب الاخذبالیدین یعنی دونوں ہاتوں سے مصافحہ کا باب علحیدہ قائم فرماکراس میں حضرات تابعین کے عمل کو واضح کرتے ہوۓ فرما یا:حضرت حماد نے حضرت ابن مبارک سے دو ہاتوں سے مصافحہ کیا - (2/9)
اس کے بعد امام بخاری علیھ الرحمہ نےاسی حديث ابن مسعود کو دوبارہ اس باب کے تحت بھی نقل کیاتاکہ دو ہبتھ سے مصافحہ کر نے میں کویئ شبہ باقی نہ رہے اور اس کا سنت رسول ہونااور زیادہ واضح ہوجایۓ- اسی وجہ سے امت مسلمہ میں ہمیشہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ متوارث رہا ہے- ہندوستان میں انگریزکی آمد سے پہلے کسی اسلامی کتاب میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کوبدعت اور خلاف سنت نہی کہا گیا،اس دور میں یہ عجیب واقعہ ہوا کہ مسلمان جب آپس میں ملتے تودو ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،لیکن انگریز جب ایک دوسرے سے ملتے توایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،ان کے اس طریقے کو پہلے نیچریوں نے اپنا یا اور کالجوں وغیرہ میں ایک ہاتھ کے مصافحہ کا رواج شروع ہو گیا،البتہ وہ لوگ،اس کو حاکم قوم کا طریقہ ہی سمجھتے تھے ،پھرنیچری حضرات کی تقلید میں غیرمقلدینحضرات میں بھی صرف دایئں ہاتھ سے مصافحہ کا رواج چل پڑا،البتہ فرق یہ ہو گیا کہ ان دوستوں نے مسلمانوں کے متوارث دو ہاتھ سے مصافحہ کو بدعت اور خلاف سنت قرار دیدیااور انگریزوں اور نیچریوں کے طریق مصافحہ کو سنت نبوی قرار دیدیا‌ ،اہل اسلام کو نبی کے مخالف،نبی پاک کی سنتوں کو مٹانے والا قرار دیدیا،معروف اسلامی طریقے کو مٹانے کا نام احیاء سنت رکھا گیا،اس طرح سلام اور مصافحہ جو آجتک مسلمانوں میں محبت اور معرفت کا زریعہ تھاوہ بھی اختلاف اور شقاق وہ لڑایئ کا زریعہ بن گیا،لیکن چونکہ اس طریقے کو یاروں نے سنت قرار دیدیاتو اب ان سے اس سلسلے میں دلیل کے مطالبے ہوۓتو کہنے لگےکہ بعض احادیث سلام میں اخذ بالید اخذ بیدہ کے الفاظ ملتے ہیں  اور یہ واحد ہے جس سے معلوم ہواکہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیۓ- اہل سنت والجماعت یہ سن کران کی حدیث دانی پر سخت حیران ہوۓ،کینکہ انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضا ہیں ان کے لیۓ بھی بطور جنس ہر زبان میں واحد کا صیغہ بولا جاتا ہے جیسے کوئ کہتا ہے :میں تیرے گھر میں قدم نہی رکھوں گا: ایک قدم بولا جاتا ہے ،مگر مراد دونوں قدم لیۓ جاتے ہيں ،اسی طرح کہا جاتا ہے ، کہ میں میں نے تجھے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا، اس کا یہ مطلب نہی ہوتا کہ صرف ایک ہی آنکھ سے دیکھا تھا،دوسری آنکھ بند کر لیا ،تھا اسی طرح احادیث میں اس طرح کےالفاظ استعمال ہوۓ ہیں جیئسے آپ ‎صلی اللہ علیھ وسلم  نے فرمایا:المسلم من سلم المسلمون من لسا نھ ویدہ  :مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایزا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے – یہاں پر بھی ید واحدہی کا صیغہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہی ہے کہ ایک ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچاۓ اور دوسرے ہاتھ سے تکلیف پہنچایئ جاسکتی ہے – تمام اہل اسلام نے سلام ارومصافحہ کے باب میں لفظ ید سے جنس ید مراد لے کر دو ہاتھ سے ہی مصافحہ کو سنت قرار دیا ہے -
امام بخاری علیہ الرحمہ اپنی تاریخ میں فرما تے ہیں: حدثنی اصحابناوغیرہ عن اسماعیل بن زید وجاءہ ابن مبارک بمکۃ وصافحھ بکلتا یدیہ ۔ (حاشیہ بخاری2/926)
اسماعیل بن ابراھیم فرماتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید کو دیکھا کہ ان کے پاس عبداللہ بن مبارک مکہ مکرمہ میں تشریف لاۓتو آپ نے دونوں ہاتوں سے مصافحہ کیا –
یاد رہے کہ یہ دونوں بزرگ اپنے زمانے میں اماالمحدثین تھے –
حضرت عایئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرما یا:قد بایعتک میں نے تجھے بیعت کیا، حضرت عايئشہ رضی اللہ عنہ   فرماتی ہیں کہ صرف کلام سے بیعت فرما یاہاتھ کر بیعت نہی فرما یا – علامہ قسطلانی ارشاد الساری شرح بخاری اور علامہ عینی عمدۃ القاری شرح بخاری اس کی شرح فرماتے ہیں :ائ لا بالیدکما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین۔ یعنی ہاتھ سے بیعت نہی فرمایا جس طرح مردوں کو بیعت کرتے وقت دونوں ہاتھ سے مصافحہ کیا کرتے تھے-
حضرت مولاناامین صفدراکاڑویرحمہ اللہ نے اپنی کتاب تجلیات میں ایک عجیب لطیفہ لکھا ہے کہ ایک غیر مقلد دوست کو بخاری شریف سے دو ہاتھ سے مصافحہ کی حدیث دکھا یئ گیئ تو تھوڑی دیر خاموش رھنے کہ بعد بولا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیھ وسلم   مصافحہ میں دو ہاتھ تھے لیکن حضرت ابن مسعود کا تو ایک ہی ہاتھ تھا ،میں نبی تو نہی کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کروں،میں چنوکہ نبی نہی حضرت ابن مسعود کی اتباع کرونگا ،تو حضرت نے فرمایا تم جیسے نبی نہی ،اسی طرح ابن مسعود کی طرح صحابی بھی نہی ہو،اس لیۓ تم مصافحہ میں انگوٹھے سے انگوٹھاملا لیا کرو ،نہ تمہارے نبی ہونے کا شبہ ہو نہ صحابی ہونے کا شبہ ہو-
اصلا بات یہ ہے کہ حدیث میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ   دوسرے ہاتھ کی نفی نہی ہے- کس کا دل مانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیھ وسلم    تودو ہاتھ سے مصافحہ فرمایئں اور ابن مسعود ایک ہی ہاتھ بڑہایئں ، بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ   اپنے اس ایک ہاتھ یہ خوبی واضح کر نا چاہتے ہیں کہ میرے ایک ہاتھ کے دو طرف حضور‎ صلی اللہ علیھ وسلم    کی ہتیلیاں تھیں-
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو تمام مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمایۓ اور سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمایۓ - آمین

رمضان کا آخری عشرہ



رمضان کا آخری عشرہ
عشرہ صفائی:
ہمارے ہاں ایک اور اہم اور غلط روایت ہے کہ آخری عشرہ عبادت کی بجائے گھر کی صفائیوں اور دھلائیوں کا عشرہ بن جاتا ہے. خواتین تمام کپڑے، فرش، ٹیبل اور صوفہ کور اور دیگر اشیاء کی دھلائی عید سے قبل (ظاہر ہے آخری عشرے میں) کرتی ہیں اور اس میں خوب محنت کی جاتی ہے. گھروں کو سجانے میں بعض اوقات غلو سے کام لیا جاتا ہے اور یوں عشرہ عبادت و ریاضت، تھکن کی نذر ہوجاتا ہے. یہ بھی جہالت کا فعل ہے۔ خواتین کو بھی اس عشرے میں گھر کی صفائی دھلائی سے زیادہ روحانی صفائی اور طہارت پر توجہ دینی چاہیے. (صفائی سے منع نہیں کررہے لیکن غلو سے پرہیز ہونا چاہیے). غیرضروری کاموں سے توجہ ہٹا کر وقت اعتکاف اور ذکرودعا میں لگانا چاہیے۔
جن خواتین کے لیے ممکن ہو دس دن کا اعتکاف کریں (اس دوران اٹھ کر کھانا وغیرہ پکا سکتی ہیں اگر کوئی اور انتظام نہ ہو تو)۔ جن کے بچے چھوٹے ہوں اور پورا اعتکاف ممکن نہ ہو تو چند دنوں اور چند گھنٹوں کا اعتکاف بھی ہوسکتا ہے اور گھر کا کام کرنے والی خواتین تو دہرا اجر سمیٹ سکتی ہیں اپنے نیک اور نمازی شوہر اور اولاد کی خدمت اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا باعث اجر ہے اور یہ کام کرتے ہوئے وہ مسلسل تلاوت اور ذکر کرتی رہیں اور اپنا نامہ اعمال دونوں طرح  سے بھرتی رہیں یعنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دل کو اﷲ کی یاد میں اٹکا ئے رکھنا. ہماری ایک بہن نے گھریلو کام کاج کے دوران سورہ بقرہ حفظ کر لی، ایک نے اس کے ساتھ سورہ آل عمران بھی کرلی اور ایک بہن نے اسی طرح گھر کی مصروفیات کے ساتھ چند سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ لہذا رمضان میں غیر ضروری مصروفیات ترک کر کے اس طرح کا کوئی منصوبہ  بنانا مشکل نہیں۔ جہاں چاہ وہاں راہ  ان شاء اﷲ.
عید کی تیاری اور خریداری:
رمضان میں بازاروں میں پھرنا، انتہائی نقصان دہ ہے. اس لیے کہ دنیا میں اﷲ کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہ بازار ہے. بازار میں جا کر انسان کی نیکیاں ایسے جھڑتی ہیں جیسے درخت کے پتے کیونکہ ایک تو وہاں ہر طرف سامان دنیا ہوتا ہے جو انسان کو غافل کردیتا ہے اور دوسری جانب عورتیں ہوں یا مرد کثرت سے نا محرموں کے درمیان ہوتے ہیں اور نظریں بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بد نصیبی سے رمضان میں بازاروں میں چلت پھرت کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے اور آخری عشرے میں دیر تک بازار کھلے رہتے ہیں۔ حتیٰ کے جمعہ کے دن بھی اور طاق راتوں میں بھی انا ﷲ و انا الیہ راجعون اور چوڑیوں وغیرہ کے بازاروں میں آخری راتوں میں کھوئے سے کھوا چھلتا ہے. یہ ناممکن ہے کہ سڑکوں اور بازاروں میں پھرا جائے اور پھر نمازوں میں خشوع برقرار رہے۔ اور انسان، عبادت، تلاوت  اور اذکار یکسوئی سے کر سکے. کتنے بد نصیب ہیں وہ مسلمان معاشرے، جہاں رمضان میں بھی بازار آباد ہوں اور مسجدیں ویران، اولئک الذین اشتروالحیوۃ الدنیا بالاخرۃ ( سورہ البقرہ)’’ان لوگوں نے آخرت کے بدلے حیوۃ دنیا خرید لی ہے‘‘  انہیں معلوم  نہیں ہے کہ یہ سرمایہ آخرت میں بہت ہی تھوڑا  نکلے گا! ’’کاش انہیں معلوم ہو جائے یہ کتنی بری تجارت ہے‘‘

کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تمام اہم خریداری رمضان سے قبل کر لی جائے اور خواتین بازاروں میں جانے سے حتی ٰ الامکان گریز کریں اور اپنے مردوں کی خریداری پرقناعت کریں کہ یہ نیکیوں کی حفاظت کا ذریعہ ہوگا ان شاء اﷲ ا
اجرت لینے کی رات:
لیجئے مہمان کے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔ رحمت، مغفرت اور آتش دوزخ  سے رہائی حاصل کرنے کی فکر میں مومنین نے مہینہ بھر محنت اور مشقت میں گزارا، دن بھر بھوک پیاس برداشت کی، زبان، آنکھ کان، دیگر اعضاء کو ہر طرح کے گناہوں سے روکے رکھا، قرآن و اذکار ورد زبان رہے اور راتیں اپنے رب ذولجلال والاکرام اﷲ کے حضور قیام و سجود میں گزاریں۔ اس کا پاک کلام سنا۔ غفلت کی نیند سے بچ بچ کر راتیں گزارنے کی سعی کرتے رہے۔ سحروافطار رب کے حضور گڑگڑاتے رہے اور الرحمان والرحیم  اور الودودو المجیب اﷲ سب کچھ محبت سے دیکھتا رہا۔ سحر کے وقت اور طاق راتوں میں فرشتے اترتے رہے، مومنین کو دیکھتے رہے، ان کی دعائوں پر آمین کہتے رہے اور جبرائیل خوش نصیبوں سے مصافحہ کرتے رہے۔ اﷲ فرشتوں سے مومنین کے تنافس پر فخر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ رمضان گزر گیا اور اجر کی رات آگئی۔

وہ رات بھی عجیب رات ہوتی ہے جو آخری رات ہوتی ہے۔ جب صبح عید ہوتی ہے۔ ایک جانب غافلین ہوتے ہیں اور دوسری جانب محنت کرنے والے مومنین ہوتے ہیں جو کچھ اور ہی کیفیات سے گزرے ہوتے ہیں. رمضان کی رحمتوں کے بادل چھٹ جانے کا ایک عجیب افسردہ کرنے والا احساس طاری ہوتا ہے. اپنی کم مائیگی کا بہت زیادہ احساس کہ نہ جانے کچھ کر پائے یا نہیں، نہ جانے اﷲ کے حضور قبولیت کا کیاعالم ہے؟ ایسے میں پیارے نبی ؐ کا یہ فرمان ٹھنڈک بن کر ان کے اعصاب میں اترتا ہے کہ ’’ رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیا یہی وہ لیلۃ القدر ہے حضور ؐ نے ارشاد فرمایا، ’’نہیں بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے، جب وہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے‘‘ (احمد) اس رات کو آسمان پر لیلۃ الجائزہ کا نام دیا گیا  اور یقینا جس نے جتنا کمایا ہوگا اتنا ہی اجر اور مزدوری پائے گا۔
واتقوا یوماََ ترجعون  فیہ الی ﷲ  ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون ہ(سورۃ البقرہ81)
’’ اس دن سے ڈرو، جب کہ تم اﷲ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شحض کو اس کی کمائی ہوئی نیکی  یا بدی  کا پورا  بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا‘‘

اﷲ ہرگز ظلم نہیں کرتا لیکن بہت سے بدنصیب ہوتے ہیں جو اس مغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے نہ اﷲ کی رحمت کی قدر کی، نہ رمضان کا حق ادا کیا، نہ روزے کی حفاظت کی اور جو کبائر سے بھی نہ باز آئے ان کے بارے میں بہت سخت وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر میں فرشتے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ ’’ اﷲ تعالی نے محمد ؐ کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ کیا؟ وہ کہتے ہیں، اﷲ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا ! صحابہؓ نے پوچھا ،’’ یا رسول اﷲ وہ چار شحض کون ہیں؟ ارشاد ہوا، ایک وہ جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو‘‘ (ترغیب۔بہیقی) اسی طرح کی احادیث پڑھتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیےکہ مخاطب کون سے مسلمان ہیں۔ صحابہ کرام ؓ جو اس طرح کی نمازوں اور روزوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے جیسے کے آج کے مسلمانوں نے ان عبادات کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ اﷲ تعالی ہمیں انعام لینے والوں میں سے کرے  ’’صراط الذین  انعمت علیھم ہ غیر المغضوب  علیھم والضالین‘‘ اور یہ رات ہم عید کی خریداری کی نذر کرنے کی بجائے عبادت میں گزاریں تا کہ اﷲ سے اپنی پوری پوری مزدوری وصول کر سکیں۔آمین۔
عید الفطر:
جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو حق شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین سے اتر کر تمام، گلیوں، راستوں کی سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ محمد ؐ کی امت اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود  اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائے تو حق تعالی شانہ ارشاد فرماتے ہیں  کہ اے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی  رضا اور مغفرت  عطا کردی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اس اجتماع  میں مجھ سے آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے، اس میں تمھاری مصلحت پر نظر رکھوں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمھاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے  جلال کی قسم میں تمھیں  مجرموں ( کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم  سے راضی  ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (ترغیب۔بہیقی)۔ اللھم اجعلنا منھم.


ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟
اس کا بہت اچھا اندازہ روزِ عید ہی ہوجاتا ہے. کیا عید کے دن خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں حدود اﷲ کا خیال رہتا ہے؟ مہینہ بھر ضبط نفس کی جو مشق کی تھی وہ بر قرار رہتی ہے؟ یا عید کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ آج ساری پابندی ختم. خوب کھل کھلیں، خوب فلمیں دیکھیں، مخلوط پارٹیاں کریں،گھومیں پھریں، نمازیں قضا کریں اور نہ جانے کیا کیا غلط اعمال کیے جاتے ہیں۔ نہیں، عید کا دن ہمارے جائزے کا دن ہے۔ ایک ٹیسٹ کا دن ہوتا ہے کہ ہم نے رمضان سے کیا پایا؟ کتنی تربیت حاصل کی؟ کتنی پابندیوں پر قائم رہے اور عید کے بعد ۔۔سارا سال ہمارے اس کردار کا آئینہ ہوتا جو ہم نے رمضان میں تعمیر کیا ہوتا ہے! جس نے دوران رمضان ایک نیا اپنا آپ دریافت کیا اور اپنی تعمیر نو کر لی، ایسا رمضان مبارک ہو


Friday, August 26, 2011

بہن عائشہ (بلوندر کور) سے ایک ملاقات


بہن عائشہ (بلوندر کور) سے ایک ملاقات




محترمہ اسماء ذات الفوزین
ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سینکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں، یقین نہ آئے تو کچھ وقت کے لیے مسلمان بن کر دیکھ لیں ،میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لیے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہیے۔

اسماء : السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ

عائشہ: وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ

سوال… عائشہ باجی، اب کی مرتبہ تو آپ بہت زمانہ کے بعد آئیں، کیا بات ہے ؟

جواب… اسماء بہن! میں تو تڑپ رہی تھی، مگر فون ہی نہیں مل پاتا، نہ جانے کس طرح اس مرتبہ فون پر بات ہوئی ، تو میں نے وقت لیا اور آگئی۔

سوال… اصل میں ہمارے یہاں پُھلت سے ایک اردو میگزین ارمغان نکلتا ہے، مجھے حکم دیا تھا کہ آپ آنے والی ہیں، میں آپ سے اس کے لیے ایک نٹرویولوں۔

جواب… ہاں! میں ارمغان کو خوب جانتی ہوں، میں تو کچھ کچھ اردو پڑھنے لگی ہوں اور ارمغان بھی اٹک اٹک کر پڑھ لیتی ہوں۔

سوال… آپ پہلے اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟

جواب… میں ضلع فیروز پور پنجاب کے ایک قصبہ کے سکھ گھرانے میں 3 جون1965ء میں پیدا ہوئی، میرے پتاجی شری فتح سنگھ تھے، وہ علاقے کے پڑھے لکھے اور زمین دار لوگوں میں تھے ، میرا پرانا نام بلوندر کورتھا، میں نے اپنے شہرکے گرو گووند سنگھ کالج سے گریجویشن کیا، میری شادی جالندھر کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہو گئی ، میرے شوہر اس وقت پولیس میں ایس او (S.O) تھے، ان کی بہادری او راچھی کارکردگی کی وجہ سے ان کے پرموشن ہوتے رہے اور وہ ڈی ایس پی بن گئے، میرے دو بیٹے اورایک بیٹی ہے اور تینوں پڑھ رہے ہیں۔

سوال… آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟

جواب… میری ایک چھوٹی بہن آشاکور تھی، اس کی شادی بھی میرے پتا نے ایک پولیس تھانہ انچارج سے کر دی تھی، وہ بہت خوب صورت تھی، اس کا شوہر اس کو بہت چاہتا تھا، شادی کے بعد وہ اکثر بیمار رہنے لگی، روز روز اس کو کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا ،علاج کراتے تو کچھ ٹھیک ہو جاتی، پھر بیمار ہو جاتی ، اس کے شوہر نے اس کا دہلی تک علاج کرایا اور لاکھوں روپے خرچ کیے ، مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، مجبوراً سیانوں او رجھاڑ پھونک والوں کو دکھایا، کسی نے بتایا کہ اس پر تو اُوپرا اثر ہے مگر علاج کوئی نہیں کر پاتا، کسی نے بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک صاحبہ ہیں، وہ علاج کرتی ہیں ، ان کو وہاں بھیجا گیا، انہوں نے جھاڑا پھونکا، اس سے اس کو بڑی راحت ہوئی ، لیکن انہوں نے آشا سے کہا ،جب تم کو دو چار روز کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو تم دوزخ کی ہمیشہ کی تکلیف کو کیسے برداشت کرسکتی ہو؟ اس لیے اس تکلیف کی فکرکرو اور اس کا علاج یہ ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ او راگر تم مسلمان ہو جاؤ گی تو مجھے امید ہے کہ تم یہاں بھی ٹھیک ہو جاؤگی۔ پھر میں تمہیں اپنے حضرت صاحب کے پاس بھیجوں گی، وہ دعا کریں گے ، مجھے امید ہے کہ الله تعالیٰ تمہیں ضرور ٹھیک کر دے گا۔ آشا نے ان سے کہا کہ میں اپنے شوہر سے مشورہ کروں گی، انہوں نے آشا سے کہا کہ ایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اس میں شوہر سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ، بلکہ اگر شوہر مخالفت کرے، بلکہ وہ اگر اس بات پر مارے یا چھوڑ دے تو بھی انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان قبول کر لے، تاکہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو راضی کرکے ہمیشہ کی جنت حاصل کر لے ۔ آشا نے کہا کہ پھر بھی گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سوچنا سمجھنا تو ضروری ہے، انہوں نے کہا تم جلدی مشورہ کرکے آجاؤ تو میں تمہیں کلمہ پڑھاکراپنے حضرت کے پاس بھیج دوں گی۔ وہ وہاں سے بھٹنڈہ آئی ،اپنے شوہر سے کہا، مجھے بہت آرام ملا ہے، مگر باجی کہتی ہیں کہ اگر تو مسلمان ہو جائے تو بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کے شوہر اس سے بہت محبت کرتے تھے بولے تو کچھ بھی کر لے اورکچھ بھی بن جا، مگر تو ٹھیک ہو جائے، مجھے خوشی ہی خوشی ہے۔ اس نے فون پر باجی سے بات کی کہ مجھے حضرت صاحب کے یہاں جانے کا پتہ بتا دیں، میں ان کے پاس جاکر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں، انہوں نے حضرت کا فون نمبر دیا،25 مئی2004ء کو صبح صبح آشانے حضرت صاحب کو فون کیا ،آشا نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ میں اسلام لانے کے لیے آنا چاہتی ہوں ، میرے شوہر، میرے بچے اورگھر کا کوئی بندہ مسلمان نہیں ہو گا، بس اکیلے میں مسلمان ہوں گی۔ مولانا صاحب کے معلوم کرنے پر آشا نے اس کو مالیر کوٹلہ کی باجی سے جو باتیں ہوئی تھیں بتائیں، حضرت صاحب نے آشا سے کہا، تم نے ان سے ہی کلمہ کیوں نہ پڑھ لیا؟ آشا نے اصرار کیا کہ مجھے کلمہ آپ ہی کے پاس پڑھنا ہے ، مولانا صاحب نے کہا مجھ سے پڑھنا ہے تو ابھی فون پر پڑھ لو، آشا نے کہا نہیں، آپ کے پاس آکر ہی کلمہ پڑھوں گی ، مولانا صاحب نے کہا بہن! موت زندگی کا کوئی اطمینان نہیں ، تم تو بیمار بھی ہو تندرست آدمی کے بھی ایک سانس کا اطمینان نہیں کہ اگلا سانس آئے گا بھی کہ نہیں، اس لیے کلمہ فون پر پڑھ لو، جب یہاں آؤ گی تو دوبارہ پڑھ لینا ، مولانا صاحب کے کہنے پر آشا نے کہا کہ پڑھو ادیجیے، مگر اصل تو میں آکر ہی پڑھوں گی ، مولانا صاحب نے کہا اصل تو اسی وقت پڑھ لو، نقل یہاں آکر پڑھ لینا، وہ تیار ہو گئی، مولانا صاحب نے اس کو کلمہ پڑھوایا، اس کی موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور کہا کہ اب تمہیں نماز یاد کرنی ہے او رکسی بھی غیر اسلامی تہوار ، پوجا یا رسم سے بچنا ہے ، نام معلوم کرکے مولانا نے اس سے کہا، تمہارا اسلامی نام آشا سے بدل کر عائشہ ہو گیا ہے ، یہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کا نام بھی ہے ، فون پر بات کرکے اس نے خوشی خوشی سارے گھر کو بتایا، اپنے شوہر کو بھی بتایا، میں بھی جالندھر سے اس سے ملنے آئی ہوئی تھی، مجھے بھی بتایا مجھے ذرا برا بھی لگا کہ دھرم بدل کر یہ کیسے خوش ہو رہی ہے؟ مولانا صاحب سے فون پر بات کرکے اور کلمہ پڑھ کر نہ جانے اس کو کیا مل گیا تھا؟! میں بار بار اس کے منھ کو دیکھتی تھی ، جیسے پھول کھل رہا ہو ، عجیب سی چمک اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی، میں نے اس سے کہا بھی کہ آشا! آج تیرا چہرہ کیسا دمک رہا ہے! بولی میرے چہرے پر ایمان کا نور چمک رہا ہے ، سارے دن اس قدر خوش تھی کہ شاید دس سال میں پہلی بار گھر والوں نے اسے ایسا خوش اور تن درست دیکھا، کئی سال کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا، خوب ضد کرکے سب کو کھلایا ، سونے سے پہلے وہ نہائی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا، ایک کاغذ پر اس نے وہ لکھ رکھا تھا، پہلے اس نے اسے خوب یاد کیا او رپھر زور زور سے پڑھتی رہی ، اچانک وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ، کہنے لگی یہ محل سونے کا کتنا اچھا ہے ؟ یہ کس کا ہے ؟ جیسے کس سے بات کر رہی تھی ، بہت خوش ہو کر بولی کہ یہ میرا ہے ، یہ میرا ہے ، یہ جنت کا محل ہے ۔ بہت خوش ہوئی ، اچھا ہم جنت میں جارہے ہیں، تھوڑی دیر میں کہنے لگی پھولوں کے اتنے حسین گل دستے کس کے لیے لائے ہو ؟ کتنے پیارے پھول ہیں یہ ! اچھا تم لوگ ہمیں لینے آئے ہو ، تھوڑی دیر میں ہنس کر بولی ، اچھا ہم تو اپنی جنت میں چلے تمہاری جیل سے چھوٹ کر اور زور زور سے پھر تین بار کلمہ پڑھا اور بیٹھی بیٹھی بیڈ پر ایک طرف کو لڑھک گئی ، ہم سبھی لوگ گھبرا گئے، اس کو لٹایا، بھائی صاحب ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے ، ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو مر چکی ہے ، مگر وہ جیسے ہنستے ہوئے سو گئی ہو ، گھر میں کہرام مچ گیا ، گھر میں مشورہ ہوا کہ یہ مسلمان ہو کر مری ہے ، اگر ہم لوگوں نے اس کو اپنے مذہب کے مطابق جلایا تو کبھی ہم پر کوئی بلا آجائے ، صبح کو جیجا (بہنوئی)نے مالیر کوٹلہ باجی کو فون کیا کہ آشا کا رات میں انتقال ہو گیا ہے ، ہمارے یہاں تو مسلمان نہیں ہیں ان کے کریا کرم کے لیے مالیر کوٹلہ سے کچھ لوگ آجائیں ، دس بجے تک ایک گاڑی بھر کے مالیر کوٹلہ سے مرد عورتیں آگئیں اوران کو دفن کیا ، 1947ء کے بعد پہلی مرتبہ اس شہر میں کوئی آدمی دفن ہوا تھا، قبرستان ابھی تک موجود تھا۔

سوال… یہ تو آپ نے اپنی بہن کے مسلمان ہونے کی بات بتائی جو واقعی حیرت ناک ہے ، موت بھی کس قدر قابل رشک ، زندگی میں نہ کوئی نماز پڑھی، نہ کوئی روزہ رکھا ، نہ کوئی اسلامی عمل کیا او رکیسی پاک صاف ، گناہوں سے پاک، دنیا سے گئی ، کیسا قابل رشک انتقال ہوا! مگر آپ سے میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کی درخواست کی تھی ، وہ سنائیے؟

جواب… اصل میں میرا اسلام عائشہ کے اسلام سے جڑا ہوا ہے، آشا او رمجھ میں حددرجہ محبت تھی، اس کی اچانک موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا، مگر اس کی موت او راسلام قبول کرنے کے بعدایک دن کی زندگی مجھے بار بار سوچنے پر مجبو رکرتی تھی کہ اس دنیا کی جیل سے وہ جنت کے محل کی طرف صرف ایک کلمہ کی برکت سے پہنچ گئی، وہ کس طرح ہنستے ہوئے دنیا سے گئی، میں نے اپنے میکے اور سسرال میں کئی لوگوں کو مرتے دیکھا، کس طرح تڑپ تڑپ کر کتنی مشکل سے جان نکلی، میں سوچتی کہ آشا کو کیا مل گیا جس کی وجہ سے اتنا مشکل مرحلہ آسان ہو گیا، ایک رات میں نے خواب دیکھا، آشا بہت خوب صورت ہیرے اور موتی ٹنکے کپڑے پہنے، تخت پر خوب صورت تکیہ لگائے بیٹھی ہے ، تاج سر پر لگا ہے ، جیسے کوئی رانی یا شہزادی ہو، میں نے اس سے سوال کیا کہ آشا! تجھے اتنی آسان موت کیوں کر مل گئی؟ بولی ایمان کی وجہ سے اور باجی میں تجھے سچ بتاتی ہوں کہ مجھے ایمان کے ساتھ صرف ایک دن ہی تو ملا ہے ، ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سینکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں ، یقین نہ آئے توکچھ وقت کے لیے مسلمان بن کر دیکھ لیں، میری آنکھ کھل گئی او رمیرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لیے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہیے، میں نے اپنے شوہر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا، میں ہفتہ دو ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آشا کی موت کے بعد میں چوں کہ ہر وقت غمگین رہتی اور چپکے چپکے کمرہ بند کرکے روتی رہتی، تو میرے شوہر نے مجھے اجازت دے دی کہ تجھے تسلی ہو جائے گی تو کرکے دیکھ لے، مگر یہ سوچ لے کہ کبھی تو بھی آشا کی طرح ایک دن بعد مر جائے ، میں نے کہا ، اگر میں مرگئی تو شاید میں بھی جنت میں چلی جاؤں اور آپ کوئی اچھی دوسری بیوی کر لیجیے، مگر دیکھیے! میرے بچوں کو وہ نہ ستائے۔

دو روز بعد میں نے اپنے بہنوئی سے مالیر کوٹلہ والی باجی کا فون نمبر لیا او ران سے حضرت صاحب کا فون نمبر لیا اورمیں نے ان سے فون پر کہا کہ میں حضرت صاحب کے پاس جانا چاہتی ہوں اور مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں ، وہ بہت ہنسی کہ مسلمان ہونا کوئی ناٹک یا ڈرامہ تو نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنا روپ بدل لیں، پھر بھی انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، آپ ہمارے حضرت صاحب کے پاس جائیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے ، میں نے فون حضرت صاحب کو ملایا، کئی روز کی کوشش کے بعد ان سے بات ہوپائی ، میں نے ان سے ملنے آنے کی خواہش کا ذکر کیا ، وہ مجھ سے ملنے آنے کی وجہ معلوم کرتے رہے اور بولے آپ مجھے خدمت بتائیے، کیا معلوم فون پر ہی وہ مسئلہ حل ہو جائے۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں مجھے بھی فون پر ہی کلمہ پڑھوادیں اورمسلمان ہونے کو کہیں، اس لیے میں نے بتانا نہیں چاہا ، مولانا صاحب نے مجھ سے کہا ، بہن! میں بالکل بیکار آدمی ہوں، اگر آپ ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں یا جادو وغیرہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں یا کوئی تعویذ گنڈہ وغیرہ بنوانا چاہتی ہیں تو ہمارے باپ داداؤں کو بھی یہ کام نہیں آتا،آپ مجھے ملنے کا مقصد بتائیں، اگر وہ مقصد یہاں آکر حل ہو سکتا ہے تو سفر کرنا مناسب ہے ، ورنہ اتنا لمبا سفر کرکے پریشان ہونے سے کیا فائدہ ہوگا؟ مولانا صاحب نے جب بہت زور دیا تو مجھے بتانا پڑا کہ میں ایک ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور میں اس آشا کی بڑی بہن ہوں، جس کو آپ نے فون پر کلمہ پڑھوایا تھا او راس کا اسی رات میں انتقال ہو گیا تھا، آشا کا نام سن کر مولانا صاحب نے بڑی محبت سے کہا، اچھا اچھا، آپ ضرور آئیے اور جب آپ کو سہولت ہو، آپ آجائیے، مجھے آج بتا دیجیے، میں آپ کے لیے اپنا سفر ملتوی کردوں گا۔ مولانا صاحب نے مجھے جالندھر سے آنے کا راستہ بتایا کہ شالیمار ایکسپریس سے سیدھے کھتولی اتریں اور اسٹیشن سے آپ کو کوئی لینے آجائے گا، سفر کی تاریخ طے ہو گئی کوئی مناسب آدمی میرے ساتھ جانے والا نہیں تھا، میں نے اپنی نن سُس (شوہر کے رشتے کی نانی) کو تیار کیا، گھر میں کام کرنے والی بھی او رنانی بھی، ہم تینوں 14 نومبر کی صبح نو بجے کھتولی پہنچے کھتولی حضرت صاحب کی گاڑی لینے کے لیے آگئی تھی، پُھلت آرام سے پہنچ گئے، مولانا صاحب پُھلت میں موجود نہیں تھے، مگر آپ کی امی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب ابھی دوپہر تک پُھلت پہنچ جائیں گے، ان شاء الله۔ ہم لوگوں نے نہا کر ناشتہ کیا اور تھوڑی دیر آرام کیا او راس کے بعد گھر کی عورتوں سے ملاقات ہو گئی او رمیں اپنے آنے کی غرض بتائی ، منیرہ باجی اور امی جان نے مجھے سمجھایا کہ ایک ہفتہ کے لیے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، یہ تو موت تک کے لیے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، میں پریشان ہو گئی کہ مجھے اپنا مذہب اور سب کچھ بالکل چھوڑنا ہو گا، یہ کس طرح ہو سکتا ہے ، دوپہر دو بجے مولانا صاحب آگئے ، باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے، مولانا صاحب دو منٹ کے لیے ہمارے پاس آئے ، ہمیں تسلی دی، بہت خوشی ہوئی ، آپ آئیں، عائشہ مرحومہ کی وجہ سے آپ کے پورے خاندان سے مجھے بہت تعلق ہو گیا ہے ، میری واپسی کا نظام معلوم کیا، جب میں نے بتایا کہ میں تین روز کے لیے آئی ہوں تو کہا اصل میں باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، جن میں کئی ایسے ہیں جو دو تین روز سے پڑے ہوئے ہیں ، رات کو ان شاء الله اطمینان سے آپ سے ملیں گے ، اسماء بہن آپ کو یاد ہو گا آپ نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب” آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں“ لا کر دی ، میں نے شام تک اس کو تین دفعہ پڑھا میرا دل ایمان کو ہمیشہ کے لیے قبول کرنے کے سلسلہ میں صاف ہو گیا، مغرب کی نماز پڑھ کر مولانا صاحب ہمارے پاس آئے ، مجھے ایمان کی ضرورت کے بارے میں بتایا مرنے کی بعد کی زندگی ، جنت دوزخ او راپنے پیدا کرنے والے کو راضی کرنے کے بارے میں بتایا۔ ”آپ کی امانت“ پڑھ کر میرے ذہن سے ایک ہفتہ کے لیے اسلام قبول کرنے کا خیال ختم ہو گیا تھا ، میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کیا تو مجھے اسلام کا کلمہ پڑھوایا، گھر کی سب عورتیں جمع تھیں، میں نے کہا آپ میرا نام ، جو آشا کا نام رکھا تھا رکھ سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، آپ کا نام بھی عائشہ رکھتے ہیں او رعائشہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بہت ہی لاڈلی اہلیہ محترمہ ہیں۔

اسماء تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے مولانا صاحب سے دو سوال کیے تھے، میں نے دیکھا مولانا صاحب بات تو ہم سے کر رہے تھے، مگر رخ ان کا آپ کے گھر والوں کی طرف تھا، میں نے سوال کیا کہ آپ ہم سے منھ پھیر کر کیوں بات کر رہے ہیں، تو مولانا صاحب نے کہا، اسلام عورتوں او رمردوں کے درمیان پردہ کا حکم دیتا ہے ، وہ سب عورتیں جن سے اسلام کے قاعدہ کے مطابق مسلمان کی شادی ہو سکتی ہو ، سب عورتیں ایک مرد کے لیے نامحرم ہیں، ان ے پردہ کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ مجھے پردہ کے پیچھے سے آپ سے بات کرنی چاہیے تھی، مگر مجھے خیال ہوا کہ آپ کو بڑی اجنبیت سی لگے گی، اس لیے میں نے سامنے آکر اپنے رخ کو دوسری طرف کرکے نامحرم پر نگاہ نہ ڈالنے کے اسلام کے حکم پر عمل کیا، ایمان کی دعوت جیسی سب سے محبوب عبادت میں ، کسی نامحرم پر نگاہ پڑنے کے گناہ کے ساتھ اثر نہیں رہتا، میں نے کہا: میری بہن آشا نے جب آپ سے ایمان لے آنے کی بات کہی تو اتنا انکار کرنے پر بھی آپ نے ان کو فون پر کلمہ پڑھوایا، میں اس لیے آپ سے آنے کی غرض نہیں بتا رہی تھی کہ کہیں آپ مجھے بھی فون پر کلمہ پڑھوا کر ٹال دیں ، مگر آپ نے مجھے فون پر کلمہ پڑھنے کے لیے نہیں کہا اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت صاحب نے جواب دیا، فون پر کلمہ پڑھوانا ٹالنا نہیں ہے ، بلکہ ناپائیدار، پانی کے بلبلے کی طرح کی فانی زندگی کا خیال اور سچی ہم دردی ہے ، واقعی نہ جانے مجھے کیوں خیال نہیں آیا، میں نے غلطی کی ، خدانہ کریں آپ کا راستہ میں یا اس دوران انتقال ہو جاتا تو کیا ہوتا یا میرا انتقال ہو جاتا، خود میرے لیے بڑی محرومی تھی، نہ جانے کس خیال میں مجھ سے بھول ہوئی او رپھر آپ چار پانچ روز اسلام سے محروم رہ گئیں او راتنی بڑی ضرورت اور خیر میں تاخیر ہو گئی، الله تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ، واقعی میں نے بڑی غلطی کی، اصل میں الله تعالیٰ کام کرنے والوں کے دلوں میں خو د ہی تقاضے ڈالتے ہیں، آپ ایک ہفتے کے لیے اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں، ظاہر ہے یہ کوئی کھیل تھوڑی ہے، اقبال ایک شاعر ہیں، انہوں نے کہا ہے #
        یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
        لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اسلام قبول کرنا تو اپنی چاہت کو ، اپنی انا کو قربان کر دینا ہے ، اس کے لیے آپ کے ساتھ فون پر بات کرنا کافی نہیں تھا، اس لیے الله نے دل میں فون پر کلمہ پڑھوانے کی بات نہیں ڈالی ، آشا سے بات کرکے تو مجھے خود اندر سے لگ رہا تھاکہ اگر اس نے اسی وقت کلمہ نہ پڑھا تو شاید اس کی موت ایک دو روز میں ہو جائے ، حضرت صاحب نے سمجھایا کہ اب ہر قربانی دے کر اس ایمان کو قبر تک ساتھ لے جانا ہے ، اس کے لیے آپ پر مشکلیں بھی پڑ سکتی ہیں، قربانیاں دینی پڑ سکتی ہیں ، ایک مٹی کا برتن بھی کمہار سے کوئی خریدتا ہے تو ٹھونک ٹھونک کر دیکھتا ہے، اتنا قیمتی ایمان لانے والے کو آزمایا بھی جاسکتا ہے، اگر آپ ایمان پر جمی رہیں تو موت کے بعد کی زندگی میں یہ محسوس ہو گا کہ کتنے سستے داموں میں یہ نعمت ملی ہے ۔ حضرت صاحب نے گھر کے لوگوں کو مجھے نماز او رکھانے وغیرہ کے طریقے سکھانے کو کہا ، میری نانی او رکام کرنے والی کے بارے میں معلوم کیا، امی جان او رمنیرہ باجی ان لوگوں کو سمجھاتی رہیں ، اگلے روز حضرت صاحب سفر پر چلے گئے ، ہماری واپسی سے دو گھنٹہ پہلے لوٹے، ہماری بوا اور نانی کو سمجھایا، آپ اس دولت سے محروم کیوں جارہی ہیں ؟ کافی حد تک تو وہ پہلے سے ہی تیار ہو گئی تھیں ، حضرت صاحب کے سمجھانے سے وہ کلمہ پڑھنے پر تیار ہو گئیں ، ان کو کلمہ پڑھوایا اور بوا کا نام حضرت نے ماریہ او رنانی کا نام حضرت نے آمنہ رکھا ، خوشی خوشی ہم بامراد ہو کر رخصت ہوئے ، گھر کے سبھی لوگوں نے ہمیں ایسی محبت سے رخصت کیا جیسے میں اسی گھر میں پیدا ہوئی ہوں ، اسی گھر کی ایک فرد ہوں ، نہ جانے کیوں آج تک میں جب پُھلت یا دہلی آتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے ، جیسے میں اپنے میکے آتی ہوں۔

سوال… گھر جانے کے بعد آپ کے شوہرکا انتقال ہو گیا تھا ،اس وقت آپ کو کیسا لگا؟ انتقال کس طرح ہو اذرا بتائیں؟

جواب… حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اب اپنے رشتہ داروں سے محبت کا حق یہ ہے کہ آپ سب کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں او راپنے شوہر کو بھی اسلام کی طرف لائیں ، بچوں کو بھی مسلمان کریں ، مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ اسلام کے لیے تمہیں آزمائشیں سہنی پڑیں گی، مجھے ایسا لگا جیسے حضرت صاحب دیکھ کر کہہ رہے تھے، مجھے سخت امتحان سے گزرنا پڑا، میں نے جاکر اپنے شوہر سے اپنا پورا حال بتایا کہ اب میں ہمیشہ کے لیے مسلمان ہو گئی ہوں او ران پر زور دیا آپ بھی مسلمان بن جائیں ، وہ مجھ سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے، پہلے تو سرسری طور پر لیتے رہے ، جب میں نے زور دینا شروع کیا تو انھوں نے مخالفت کرنا شروع کی اور مجھے اسلام پر رہنے سے روکا، میں اپنے الله سے دعا کرتی ، میں نے حضرت صاحب سے فون پر بات کی کہ ایک مسلمان او رایک سکھ میاں بیوی کس طرح رہ سکتے ہیں ؟ تو حضرت نے بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد آپ سے ان کا شوہر بیوی کا رشتہ نہیں رہا اور شادی ( نکاح) ٹوٹ گیا، مگر اس امید پر آپ احتیاط کے ساتھ ان کے ساتھ رہیے کہ ان کو ایمان نصیب ہو جائے اور بچوں کی زندگی او رایمان اور مستقبل کا مسئلہ بھی حل ہو جائے ، یہ معلوم کرکے مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بڑی گھٹن محسوس ہونے لگی ، روز رات کو ہم میں لڑائی ہوتی ، آدھی آدھی رات گزر جاتی، مجھے حضرت صاحب نے الله سے دعا کے لیے کہا اوربتایا کہ تہجد کی نماز میں دعا کروں، ایک رات ساری رات ہی نماز پڑھتی رہی اور روتی رہی ، میرے الله! آپ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے آپ میرے شوہر کو ہدایت کیوں نہیں دے سکتے؟ میرے الله نے میری دعا سن لی ، اگلی رات جب میں نے ان سے مسلمان ہونے کو زور ڈالا تو انہوں نے مخالفت نہیں کی اور بولے روز روز کے جھگڑوں سے میں بھی عاجز آگیا، اگر تو اس میں خوش ہے تو چل میں بھی مسلمان ہو جاتا ہوں ، کر لے مجھے مسلمان، میں نے کہا میری خوشی کے لیے مسلمان ہونا کوئی مسلمان ہونا نہیں ، بلکہ پیدا کرنے والے ، دلوں کا بھید جاننے والے مالک کو راضی کرنے کے لیے مسلمان ہونا ہے، میں نے ان کو حضرت صاحب کی کتاب” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ دی ، پہلے بھی میں نے ان کو یہ کتاب پڑھوانا چاہی تو وہ پھینک دیتے، مگر اس روز انہوں نے وہ کتاب لے لی اور پڑھنا شروع کی ، پوری کتاب بڑے غور سے پڑھی، جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتے رہے میں نے محسوس کیا ان کا چہرہ بدل رہا ہے اور پھر اس کتاب میں سے زور زور سے تین بار کلمہ شہادت پڑھا، بولے یہ کلمہ اب میں تیری خوشی کے لیے نہیں بلکہ اپنی خوشی او راپنے رب کی خوشی کے لیے پڑھ رہا ہوں ۔ میں بیان نہیں کر سکتی دو مہینے کے مسلسل کہرام کے بعد میرے گھر میں خوشی آئی تھی ، اگلے روز معلوم ہوا کہ ان کا روپڑ ٹرانسفر ہو گیا ہے، وہاں گئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں چیف منسٹر کا دورہ ہوا، ان کے پروگرام میں وہ مصروف تھے، ایک جگہ سیکورٹی کا معائنہ کرنے لیے وہ گئے اور کالج کی باؤنڈری کے نیچے کھڑے تھے، تیز ہوا چلی اور ہوا کا ایک بگولہ ایسا آیا کہ باؤنڈری کا وہ حصہ جس کے نیچے وہ کھڑے تھے ان کے اوپر گر گیا اور اس دیوار کے نیچے دب کر اسی وقت ان کا انتقال ہو گیا۔

اسماء بہن میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ حادثہ میرے لیے کتنا سخت تھا! مگر میرے الله کا کرم ہے اس نے مجھے ہمت دی، ایمان پر اس کا الٹا اثر نہیں ہوا، مجھے اندر سے اس بات کا احساس دل کو تھامے رہا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا او روہ جنت میں چلے گئے ، جہاں چند دن کے بعد مجھے بھی ان شاء الله جانا ہے، ان کے گھر ان کے کریا کرم( تجہیز وتدفین) پر بڑا ہنگامہ ہوا، میں نے کہا میں ہر گز ان کو جلنے نہیں دوں گی، میں اس لاش کی وارث ہوں ، مجھے اس کا قانونی حق ہے، مگر گھر کے سب لوگ ضد کر رہے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے ، ڈی جی پی ، اے ڈی جی پی ، آئی جی، ڈی آئی جی، سب موجود تھے، بہت محنت کے بعد یہ طے ہوا کہ ان کی سمادھی بنادی جائے ، ان کی سمادھی بنا دی گئی اور میں نے ایک مولانا صاحب کو بلاکر ان کی جنازہ کی نماز سمادھی بنانے کے بعد پڑھوائی۔

سوال… اس کے بعد آپ پھر جالندھر آگئیں؟

جواب… روپڑ چھوڑ کر میں جالندھر آگئی، حضرت صاحب کے بتانے کے بعد میں نے اپنی عدت پوری کی، میرے بھائی لندن میں رہتے ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا آپ انگلینڈ آجائیں، میں نے پاسپورٹ بنوایا، ایک روز میں نے کعبہ کو خواب میں دیکھا، اٹھ کر میں نے فون پر حضرت صاحب کو بتایا حضرت نے بتایا کہ آپ پر حج فرض ہو گا، مگر کوئی محرم ہونا ضروری ہے اور آپ کاکوئی محرم نہیں ہے، اس لیے آپ کسی سے شادی کریں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجود اپنے کو راضی نہیں کر پائی ، مگر نہ جانے کیوں مجھے حج کو جانے کی ، جنون کی حد تک دھن لگ گئی ، اس کے لیے بار بار پھُلت اور دہلی کا سفر کیا، مگر ایجنٹوں کے پاس بار بار کوشش کے باوجود کوئی صورت نہ بن سکی، آپ اور گھر کے سب لوگ حج کو چلے گئے اور میں تڑپتی رہ گئی، یہ حج سے محرومی خود میرے لیے بڑا امتحان تھا، میں بہت رویا کرتی تھی ، اپنے الله سے فریاد کیا کرتی تھی ، مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید اب بھی میں حج کو چلی جاؤں، بقر عید سے تین دن پہلے جب مجھے خیال آیا کہ اب حج کے تین دن باقی ہیں ، اس لیے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ حج بقر عید کے دنوں میں ہوتا ہے ، میں صبح تہجد میں روتے روتے بے ہو ش ہو گئی، میں نے نیم بیداری میں دیکھا میرے سر پر احرام کا اسکارف بندھا ہے اور میں مکہ میں ہوں اور پھر منیٰ کے لیے چلے ، غرض مکمل حج کیا، میری آنکھ کھلی او رہوش آیا تو میں بیان نہیں کرسکتی کہ مجھے کتنی خوشی تھی ، میں نے کسی طرح حضرت صاحب کا مکہ مکرمہ کا فون لیا اور خوشی خوشی تقریباً پچیس منٹ تک پورے حج کی یہ تفصیل بتائی، حضرت صاحب خود حیرت میں رہ گئے۔

سوال… ابی(والد صاحب) بتا رہے تھے کہ پچھلے سال آپ حج کو گئی تھیں، امسال تو ہم حج میں بار بار آپ کا ذکر اور افسوس کرتے رہے۔

جواب… میں اپنے الله کے قربان جاؤں کہ اس نے میری حج کی دعا سن لی، اگلے سال میں نے اپنے ایک بھائی پر کوشش کی او راس کو باہر کا سفر کرانے یعنی حج کا لالچ دے کر مسلمان ہونے پر زور دیا او ربتایا کہ گرونانک جی بھی حج کو گئے تھے، کوشش کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور ہم دونوں کو پچھلے سال حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔

سوال… ارمغان کے حوالے سے آپ مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب… بس میں اپنی بہن عائشہ کی بات دہراتی ہوں کہ ایمان کی نعمت کی قدر کریں اور ایمان کے ساتھ ایک دن سینکڑوں سال کے بغیر ایمان کی زندگی سے افضل ہے او رپھر سارے جہانوں کے لیے رحمت والا نبی صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دنیا کی قید سے جنت میں لے جانے کی فکر کریں، میرے او رمیرے گھر والوں کے لیے دعا کریں کہ سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔آمین بہت بہت شکریہhttp://www.farooqia.com/node/617