Thursday, October 27, 2011

پردہ کا اسلامی تصور


بسم اللہ الرحمن الرحیم
پردہ کا اسلامی تصور

اسوقت پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں پردہ کے اسلامی تصور کے خلاف جو جنگ جاری ہے اور عملا اسپر روک لگانے کےلئے جو حربے آزمائے جارہے ہیں وہ کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں اور آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں جسمیں کسی ملک اور اور کسی علاقہ میں پردہ کے خلاف آواز اٹھائی گیئ ہو حالانکہ یہ مسئلہ صریح عقلی بلکہ طبعی ہے اگر شریعت اس سے کچھ تعرض بھی نہ کرتی تو بھی ایک طرف طبعی غیرت او راخلاقی شرافت اور دوسری طرف واقعات کا مشاہدہ ہر صحیح المزاج سلیم الفطرت کو پردہ کی ضرورت پر مجبور کرتا  یہ تو شریعت کا احسان ہے کہ قوائے حسیہ ونفسیہ کو مشقت سے بچا کر مفت اس مسلے  کی تعلیم فرمادی ۔
چنانچہ ایک مفکر کا قول ہے ،اسلامی قانون معاشرت کا  مقصد ضابطئہ ازدواج کی حفاظت ،صنفی انتشارکی روک تھام  اور غیر معتدل شہوانی تحریکات کا انسداد  ہے اس غرض کے لئے شارع نے تین تدابیر بتائی ہے،1اصلاح اخلاق ،2تعزیر قوانین ،3انسدادی تدابیر :یعنی ستر وحجاب  یہ گویا تین ستون ہیں جن پر ایوان اسلامی قائم ہے اسی لئے قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائل آیت() اللہ تعالی کا ارشاد ہے  ولا تقربوا الزنا اانہ کان فاحشۃ ،ترجمہ زنا کے قریب بھی مت پھٹ کو اس لئیکہ وہ بے حیائی کا کام ہے ،اس آیت کے مفہوم میں تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ محرکات زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی شراب ،موسیقی ،بدنظری ،وغیرہ اور عورتوں کو ستر وحجاب کا حکم بھی اسی ظمن میں داخل ہے کیوں کہ اگر وہ بے پردہ ہوں گی تو مقصد معاشرت فوت ہوجائیگا نیز حیا کا خاتمہ ہوجائیگا نتیجتا وہ برايئاں جنم لینگی جن میں آج پورہ یورپ مبتلا ہے ۔
اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ کے قوانین اس سلسلے میں بہت معتدل اور قریب الفطرت والعقل ہے اس سلسلے میں افراط سے کام لیا گیا نہ تفریط سے لیکن یہ بھی ان لوگوں کے لئے ہے جو سلیم الفطرت ہو شرافت انسانی کا کچھ شمہ انمیں باقی ہو ورنہ جو مقلوب الفطرت ہے انکے لئے تو تہذیب جدید کی نیرنگیاں اور کھلے عام بے حیایئ کا ارتکاب ہی عقل وفطرت کے مطابق ہوگا چنانچہ ایک حدیث شریف میں اسی کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے  بزار اور دار قطنی کی روایت ہے  کہ حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپۖ نے سوال فرمایا کہ عورت کےلئے سب سے بہتر کیا چیز ہوتی ہے کسی نے جواب نہ دیا حضرت علی فرماتے ہيں کہ میں نے حضرت فاطمہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا لا یرین الرجال ولا یرونھن، عورت کے لئے سب سے اچھی چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ مردوں کو دیکھے نہ مردانکو دیکھے  ،فی زمانہ عوررتوں کا باریک لباس پہننا نیز بالوں کی آرئش اسی طرح باریک باریک جزئیات کو اختیار کرنا اسکو بتلاتا ہے کہ عورت خود اپنی نمايئش چاہتی ہے کہیں نہ کہیں دل کے پردو ں اور نہاں خانوں میں اپنی نمائش حسن کا جزبہ پوشیدہ ہوتا ہے ،
چنانچہ عورتوں کو جو سب سے پہلا حکم دیا گیا وہ یہ ہے کہ عورت اکثر اوقات گھر میں رہے بلا ضرورت شدیدہ گھر سے باھر نہ نکلے گھر میں رھکر گھر اور خاندان کے نظام کو سنبھالے  اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کی ساتھ اولاد کی تعلیم ،انکی تربیت کا خاص خیال رکھے خود بھی ایسے اخلاق ایسا لباس اختیار کرے جو مطاق شریعت ہو اور اپنی اولاد کو بھی اسکی تعلیم دیں عورتوں پر اندرون خانہ وہ بیرون خانہ دونوں زمہ داریاں نہیں رکہی گیئں جن کا وہ تحمل نہ کرسکیں جیسے دل داد گان تہذیب جدید کا انداز کہ وہ اپنی عورتوں کو اندرون وبےرون دونوں زمہ داریوں کا مکلف سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے صنف نازک کے احساسات ،وجدان ،اور صحت پر جو برا اثر پڑتا ہے اسکو ضرورت اور ترقی کا نام دیکر ٹال دیا جاتا ہے اسلئے بیرون خانہ جتنی ذمہ داریاں ہیں وہ سب مرد پر رکھی گیئ  ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے  الرجال قوامون علی النساء :ترجمہ مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنے مال ان پر خرچ کرتے ہیں ،او ر عورتوں کے لئے فرمایا وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی ،:سورۃ الاحزاب() ترجمہ : اور تم (عورتیں بطور خاص ازواج مطہرات ) اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح نہ پھرا کرو   ابن کثیر نے سند بزار کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ کچہ عورتو ں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ جہاد وغیرہ کی کل فضیلتیں مرد ہی لےگئے اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتایئں  جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پاسکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ تم میں جو عورت اپنے گھر میں اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پالے گي ،
اسی طرح ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ عورت سر تا پا پردہ کی چیز ہے یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جہانکنے لگتا ہے یہ سب سے زیادہ اللہ تعالی کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب کہ یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرے میں ہو،
قرآن پاک کی سورۃ نساء آیت نمبر 6: میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : (الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعضوبما انفقوا من اموالھم ) "
مرد عورتوں پر نگراں ہے اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ تعالی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر عطا کی ہے اور اس بنا پر کہ وہ ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہيں ،
یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ گھر کے باہر کا کام مرد کے سپرد ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا الرجال علی اھلہ وھو مسئول، مرد اپنے بیوی بچوں پر نگران ہے اور اپنے ماتحت کے سلسلے میں وہ اپنے عمل پر خدا کے سامنے جوابدہ ہے ،اور عورتوں کو باہر کا کوئی کام نہیں دیا گیا