Sunday, November 10, 2013

شوکوہ ،جواب شکوہ ۔

انتخاب
شکوہ
ہم سےس پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھرکہیںمسجود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر
مانتا پھر کوئ ان دیکھے خدا کو کیوں کر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئ نام تیرا ؟
قوت بازوۓ مسلم نے کیا کام تیرا !
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئ
اور تیرے لیۓ زحمت کش پیکار ہوئ
کس کی شمشیر سے جہاں گیر دار ہوئ
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئ
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوۓ رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے
یہ شکایت نہی ،ہیں ان کے خزانے معمور
نہی محفل میں جنھیں بات بھی کر نے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور وقصور
اور بیچارے مسلمان کو صرف وعدہ حور
اب وہ الطاف نہی،ہم پہ عنایات نہی
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہی
امتیں اور بھی ہیں،ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجزوالے بھی ہیں،مست مۓ پندار بھی ہیں
ان میں،کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہیں،ہشیاربھی ہیں
سیکڑوں ہے کہ تیرے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے شانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
علامہ اقبال
جواب شکوہ
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے؟
عالم کیف ہے داناۓ رموز کم ہے
ہاں،مگرعجزکےاسرار سےنامحرم ہے
نازہےطاقت گفتار پے انسانوں کو
بات کر نے کا سلیقہ نہی نا دانوں کو
جن کو آتا نہی دنیا میں کوئ فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پر واۓ نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہوں نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جاۓ جو صنم پتھر کے
کیا کہا؟بہر مسلمان ہے فقط وعدۂحور
شکوہ بے جابھی کرے کوئ تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطرہستی کا ازل سے دستور
مسلم آیئن ہواکافرتوملےحوروقصور
تم میں حورں کا کوئ چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂطورتو موجودہے موسی ہی نہیں
کون ہے تارک آیئن رسول مختار
 مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوںمیں سمایاہے شعاراغیار
ہو گئ کس کی نگہ طرزسلف سے بیزار
قلب میں سوزنہیں،روح میں احساس نہی
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہی

علامہ اقبال