ہندوستانی مسلمانوں کے معاشی مسائل
شمع فروزاں
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی
۲۴/جون ۲۰۱۱ء
اسلام نے کسب معاش کی تر غیب دی ہے ، اور اس کو بعض دوسرے مذاہب کی طرح تقوی اور خد ا پرستی کے مغائر قرار نہیں دیا۔معیشت کے سلسلے میں اگر اسلام کے بنیادی تصور کو واضح کیا جائے تو انہیں چند نکات میں اس طرح بیان کیاجاسکتاہے :
)الف ) زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح معیشت کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات اعتدال پرمبنی ہیں ،ا سلام نے مال کو ’’ خیر‘‘ (البقرۃ : ۲۱۵) اور ’’فضل الہی ‘‘ (الجمعہ : ۱۰) سے تعبیر کیاہے ، جس سے ظاہرہے کہ مال کے حقوق اداکرتے ہوئے اسے حاصل کرنا اسلام کی نظرمیں کوئی مذموم بات نہیں ہے ، بلکہ مباح اور بعض حالات میں واجب ہے ، قرآن مجید میں ۳۲مواقع پر تو اسلوب وتعبیر کے قدرے فرق کے ساتھ صرحتاً زکوۃ دینے کی تلقین کی گئی ہے ، اور صرف ایک آیت میں زکوۃ لینے کا ذکر فرمایاگیاہے ، یہ اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ قرآن چاہتاہے کہ امت میں زکوۃ دینے والے مرفہ الحال افراد زیادہ ہوں اور زکوۃ لینے والے تنگ دست حضرات کم ہوں ، اسی کو رسول اللہ ﷺ نے : ’’ الید العلیا خیرمن الید السفلی ‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب لاصدقۃ إلاعن ظہر غنی، حدیث نمبر : ۱۳۶۱) سے تعبیرفرمایا ہے ، اور نماز کے بعد کسب حلال کو اہم ترین فریضہ قراردیاہے : ’’ کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ‘‘ ، اس لئے مسلمانوں کی معاشی ترقی کے سلسلہ میں غورکرنا ، اس مسئلہ کے لئے منصوبہ بندی کرنا اور امت کے پسماندہ لوگوں کو معاشی ترقی کے اعتبارسے اوپراٹھانے کی کوشش کرنا ایک مستحسن عمل اور اجتماعی فریضہ ہے ۔
(ب) معیشت کے سلسلہ میں اسلام کے بنیادی تصورات میں سے یہ بھی ہے کہ کسب وصرف یعنی مال کا حاصل کرنا اور اس کا خرچ کرنا اس طورپر ہوکہ وہ افراداور سماج کے لئے نفع بخش ہو ، نقصان دہ نہ ہو؛ اسی لئے قمارکو منع کیاگیاکہ اس کی وجہ سے کسی معقول سبب کے بغیر بہت سے لوگوں کی دولت ضائع ہو جاتی ہے اور انسان کے اندر بغیر محنت کے دوسروں کا مال ہڑپ لینے کا مزاج پیدا ہوتاہے ، ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کیاگیاجولوگوں کے لئے نقصان دہ ہو ، جیسے : منشیات ، تجارت میں احتکار سے منع کیاگیا ؛ کیوں کہ ذخیرہ اندوزی کا عمل ایک شخص کو فائدہ پہنچاتا ہے اور پورے سماج کو نقصان، اسی طرح خرچ کرنے میں بھی فرداور سماج کے نفع ونقصان کوملحوظ رکھاگیا ؛ فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ؛ کیوں کہ اس سے قو میں معاشی پسماندگی میں مبتلاہوتی ہیں اور تعلیم ، صحت اور دوسرے مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتی ہیں ۔
)ج) اسلام میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کرنہ رہ جائے ؛ بلکہ وہ زیاد ہ سے زیادہ تقسیم ہو اور گردش میں رہے : (مَّا أَفَاء اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ مِنْ أَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُوْنَ دُولَۃً بَیْْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنکُمْ ) (الحشر : ۷) چنانچہ قدرتی وسائل اگر شخصی زمین میں بھی دریافت ہوں تو ان کا معتدبہ حصہ بیت المال کا حق قراردیاگیا؛ تاکہ تمام لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، میراث کا مکمل نظام مقرر ہوا ،زکوۃ وعشر کو واجب قراردیاگیا؛ وغیرہ۔۔۔غرض کہ شریعت میں یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ سماج میں دولت اور اس کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکزہوکررہ جائیں ۔
)د) اسلام میں نفع کا فطری تصورہے ؛ اسی لئے سود کو حرام قراردیاگیا ، سود ایک غیر فطری چیزہے ؛ کیوں کہ خود پیسوں سے پسیے پیدا نہیں ہو سکتے ، اور سود خواریہ فرض کرکے نفع وصول کرتاہے کہ اس کے پیسوں سے لامحالہ پیسوں میں اضافہ ہوگا ؛ اسی طرح اسلام میں انسانی محنت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ؛ کیوں کہ فطری اصول یہ ہے کہ جب تک مال کے ساتھ انسانی محنت کی شمولیت نہ ہووہ نفع آور نہیں ہوتا ، اسی اصول پر اسلا م میں استشمار کے طریقوں میں مضاربت اور مزارعت شامل ہے ، مضاربت میں ایک شخض کا سرمایہ ہوتاہے اور درسرے کی محنت ، اور مزارعت میں ایک شخص کی زمین ہوتی ہے اور دوسرے کی محنت ، دونوں صورتوں میں یہ بات بھی ممکن ہے، اگر فریقین کی رضامندی ہو۔کہ محنت کارکے نفع کا تناسب زیادہ رکھاجائے ۔
اسلام کے نظام معیشت میں،جیساکہ عرض کیاگیا ۔۔بلکہ پورے نظام حیات میں اس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایساعمل نہیں ہوناچاہئے ،جوفطرت سے بغاوت پر مبنی ہو ؛ اسی لئے : تلقی جلب ، بیع حاضر للبادی ، تناجش اور احتکار وغیرہ کو منع کیاگیا ؛ کیوں کہ ان تمام صورتوں میں قیمتوں میں غیر فطری اتارچڑھا ؤپیدا کیا جاتاہے ، آج کل تشہیر ی وسائل (Advertising )کے ذریعہ مصنوعی طورپر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے ، یہ بھی اسلام کی نظرمیں پسندیدہ نہیں ہے ؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے تجارت میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کو بار بار منع فرمایا ہے اور کسی چیز کے فائدہ کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے نقصانات کے پہلوپر پرد ہ ڈالنا بھی جھوٹ میں داخل ہے ، جس کا زبردست مظاہر ہ موجودہ دور میں اشتہارات کے ذریعہ ہوتارہتاہے ۔
اس عہد میں اسلام کے مقابلے دوبڑے معاشی نظام وجود میں آ ئے ، ایک : اشتراکیت ، جس نے سترسالہ تجربہ کے بعد اپنی جائے پیدائش ہی میں دم توڑدیا ، اور جہاں اب بھی باقی ہے وہاں بھی اس نے اپنے بعض بنیادی تصورات سے سبکدوشی قبول کرلی ہے ؛ اشتراکیت کی بنیاد دونظریات پرتھی : معاشی مساوات اور اجتماعی ملکیت ۔ اور یہ دونوں ہی باتیں قانون فطرت کے خلاف ہیں ،خدانے انسان کے اندر صلاحیتوں کا فرق رکھا ہے اور معاشی ترقی میں انسان کی صلاحیت اور لیاقت کا بڑاد خل ہے ، اس کے باوجوان سب کے درمیان معاشی مساوات ایک خواب توہوسکتا ہے ، حقیقت نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح افرادکے اندر اپنی املاک میں محنت کرنے اوراسے ترقی دینے کا فطری جذبہ ہوتا ہے ، ایسی چیزجوتنہا اس کی ملکیت نہ ہو ؛ بلکہ سماج کی ملکیت ہو ، اس میں محنت کا جذبہ اس درجہ نہیں پایاجاتا ؛ لیکن اشتراکیت کے نمائندوں نے اجتماعی ملکیت کا تصوردیا اور انفرادی ملکیت کا انکارکیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں محنت کرنے کا فطری جذبہ مفقود ہوتا گیا اور معاشی ترقی رک گئی ، اسلام کا تصوریہ ہے کہ بنیادی ضرورتیں سبھوں کو مہیاہوں ؛ لیکن یہ ضروری نہیں کہ معاشی معیار بھی سب کا ایک ہو ، اسی طرح اسلام انفرادی ملکیت کا قائل ہے ؛ لیکن افراد پر اس بات کو واجب قراردیتاہے کہ وہ اپنے مال میں سماج کا حق محسوس کریں ، نیز شریعت اسلامی میں زیادہ تر قدرتی وسائل کو حکومت کی ملکیت قراردیاگیاہے ؛ تاکہ اس کا نفع زیادہ سے زیاد ہ لوگوں تک پہنچ سکے ۔
اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی اس وقت موت وزیست کی کیفیت میں ہے ؛ کیوں کہ ا س نظام نے افراد کو ایسابے لگام بنادیاہے کہ ان کے لئے کوئی اخلاقی سرحد نہیں ہے ، سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خرابی سود اور قمارکی اجازت ہے ؛ کیوں کہ یہ نفع حاصل کرنے کے غیر فطری طریقے ہیں ، اس میں مال کومبالغہ آمیز اہمیت دی جاتی ہے اور مزدوروں کی محنت کوکوئی خاص درجہ نہیں دیاجاتاہے ، یہ نظام ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتاہے ؛ حالاں کہ یہ سماج کے غریب لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، اس میں مصنوعی طورپر صارفیت کو بڑھایاجاتاہے اور اشتہارات اور بے جاتر غیبات کے ذریعہ سماج کا مزاج بنایاجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو ضروریات پر قانع نہیں رکھے؛ بلکہ خواہشات کاغلام بن جائے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خرچ کرے ؛ تاکہ سرمایہ داروں کوزیادہ سے زیادہ نفع پہنچے ، چاہے غریب لوگ قرض اور فضول خرچی کے بوجھ سے دب کر مرہی کیوں نہ جائیں ۔
ان حالات میں خاص طور پر ضرورت ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کواس کی معقولیت اور منطقیت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھاجائے اور واضح کیاجائے کہ انسانیت کی حقیقی فلاح وبہبود اورمعاشی اعتبارسے عدل کا قائم کرنااس کے بغیر ممکن نہیں ۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے ، جس کو اللہ تعالی نے بے پناہ قدرتی اور افرادی وسائل سے نوازاہے ، تقریباً تمام ہی قدرتی وسائل اس ملک میں موجود ہیں ، اورافراد ی وسائل کا حال یہ ہے کہ ایشیا، یورپ اور امریکہ میں بے شمارہندوستانی ماہرین اور مزدورکام کررہے ہیں ، اور ان کی خدمت کو ہر جگہ تحسین کی نظرسے دیکھا جاتاہے ، ان میں ایک اچھی خاصی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے ، مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یاپہلی بڑی اقلیت ہیں ، اور انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان اسی خطہ زمین میں آبادہیں ، کم وبیش ایک ہزار سال تک اس ملک کے مختلف خطوں پر مسلم سلاطین کی حکومت بھی رہی ہے ؛ لیکن اس وقت مسلمان یہاں انتہائی درجہ پسماندہ ہیں ، چنانچہ ۲۰۰۰۔۱۹۹۹ کے ایک سروے کے مطابق شہری علاقوں میں میں 222۲۴؍ اور دیہاتوں میں 222۳۱کے قریب مسلمان حط غربت سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں ، ایک قومی سطح کے سروے کے مطابق بیس فیصد مالدار لوگ وہ تھے جن کی فی کس آمدنی کا وسط شہر میں 236/۱۱۲۰روپے ماہانہ اور دیہات میں 236 /۶۱۵روپے ماہانہ تھا ، ایسے لوگوں کا اوسط قومی سطح پر بالترتیب 222۱۶ اور 222۱۵فیصد ہے ، اور مسلمانوں میں یہ اوسط صرف 222۶ اور 222۱۲فیصد ہے ۔
معاش کے بنیادی طور پر تین ذرائع ہیں ، تجارت ، ملازمت اور صنعت ۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا تجارت کی طرف رجحان مسلمانوں کے دور حکومت ہی سے کم تھا ، پھر آزادی کے بعد بہت سے مسلمان سرمایہ دار پڑوسی ملک کو منتقل ہوگئے اور جویہاں رہے ، فرقہ وارانہ فسادات نے ان کی کمرتوڑدی ؛ کیوں کہ ان فسادات میں مسلمانوں کی تجارت اور معیشت کو خاص طور پر نشانہ بنایاجاتاتھا ۔
مسلمانوں میں ملازمت کا رجحان زیادہ تھا ؛ لیکن چوں کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہدمیں مسلمان پیش پیش تھے اور انگریزبھی ان کو اپنا بڑ ادشمن خیال کرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ چوں کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے چھینی گئی ہے ؛ اس لئے وہی ہماری حکومت کے اصل باغی ہیں ، اور ان کو زیر کرنا اور محروم کرنا ضروری ہے ؛ اس لئے منصوبہ بند طور پر مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمت کے مواقع محدود کردئیے گئے ، آزادی کے بعد نقل مکانی اور اردو زبان کی سرکاری حیثیت ختم کردینے کی وجہ سے ملازمت میں ان کا تناسب اور کم ہوگیا ، فرقہ وارانہ تعصب نے بھی مسلمانوں کو بے حد نقصان پہنچایا ، صنعتی ترقی کے لئے کثیر سرمایہ اور قانونی سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے ، چنانچہ معاشی پسماند گی اور ملک کی انتظامیہ میں فرقہ پرست افسروں کے درآنے کی وجہ سے صنعت میں بھی ان کا حصہ کم سے کم تر ہو تا چلاگیا ۔
حضرات ! اسی پس منظرمیں موجود ہ حالات میں ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی ترقی کے لئے چند امور پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے :
۱) مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بہت محدود ہوگئے ہیں ؛ کیوں کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دیاہے اور بینک کا نظام اصلاً سود پر مبنی ہے ؛ اسی لئے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد منافع حاصل کرنے کے لئے بینکوں میں اپنی رقم محفوظ نہیں کرتی، یہی حال انشورنس کمپنیوں کا ہے کہ سود وقمار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا دیندار طبقہ اختیاری طور پر انشورنس سے استفادہ نہیں کرتا ، اسٹاک ایکسچینج میں گوان کے لئے گنجائش موجودہے ؛ لیکن بہت سی کمپنیاں وہ ہیں جن کے کاروبار جواز کے دائرہ میں نہیں ہیں ؛ اس لئے و ہ میچول فنڈ سے بھی استفادہ نہیں کرپاتے ؛ البتہ یہ خوش آئند بات ہے کہ بعض ایسے ادارے قائم ہوگئے ہیں جوحلال وحرام کمپنیوں کے بارے میں نشاندہی کرتے ہیں ۔
ان حالات میں ہندوستان میں اسلامی مالیاتی اداروں کا قیام نہایت اہمیت کا حامل ہے ، اس سے ایک طرف سرمایہ کاروں کو حلال نفع مل سکے گا ، اور ممکنہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسلامی تکافل سے مددلی جائے گی ، اگر ہندوستان میں اسلامی بینکاری شروع ہو جائے تو امید کی جاتی ہے کہ بہت سے مسلم مما لک کے سرمایہ کار بھی ان کے واسطہ سے یہاں اپنا سرمایہ مشغول کریں گے ؛ اس لئے اگر حکومت ہند اسلامی بینکاری کا دروازہ کھولتی ہے ، تو اس سے نہ صرف مسلمانوں کی دیرینہ آرزوپوری ہوگی اور انہیں معاشی ترقی حاصل ہوگی ؛ بلکہ ملک کوفائدہ پہنچے گا ۔
۱)دوسرااہم مسئلہ مسلمانوں میں تعلیمی اوسط کو بڑھانے کاہے ، ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں خواندگی کا اوسط ۵۹/فیصد سے کچھ او پرہے ، یہ ہندوستان میں بسنے والی تمام مذہبی اکائیوں میں سب سے کم شرح خواندگی ہے ورنہ جین کمیونٹی میں عام شرح خواندگی ، ۹۴/فیصد اور خواتین میں ۹۱/ فیصد کے قریب ہے یہاں تک کہ بودھ فرقہ میں بھی جوپسماندہ ترین سمجھے جاتے ہیں ، شرح خواندگی ۷۳/ فیصد ہے ۔
2000 کی مردم شماری کے مطابق ۱۵/ سال اور اس سے زیادہ عمر کے مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب پرائمری سطح تک 25.40، فیصد، مڈل میں 13.86 فیصد سکنڈری میں 7.78فیصد ، ہائر سکنڈری میں 3.43فیصد اور گر یجویشن اور اس سے اوپر2.52فیصدہے ، مسلمانوں میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد 61.9فیصد ہے ، جب کہ اسکول جانے والے بچوں کی قومی شرح 72%فیصد ہے ، چھ تا چودہ سال کی عمر میں تلیمی سلسلہ منقطع کرنے والے بچوں کا اوسط مسلمان سماج میں 7%۰فیصد ہے ، جبکہ قومی سطح پر یہ تناسب 4.8% ہے ۔۔۔ اگر چہ گز شتہ دودہائیوں سے مسلمانوں میں تعلیمی رجحان بڑھاہے اور جنوبی ہندکی ریاستوں میں مسلمانوں نے اپنے تعلیمی ادارے بھی بہ کثرت قائم کئے ہیں ، مگراب بھی تعلیم میں ہم کافی پسماندہ ہیں ۔
یوں تو ہمیشہ سے ہی معیشت کا تعلق تعلیم سے رہاہے ، مگر موجودہ دورمیں معاشی ترقی کے لئے اس کی اہمیت وضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے ، جب تک تعلیمی اعتبارسے مسلمانوں کی حالت بہتر نہ ہو ، وہ معاشی پسماندگی کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکتے ، موجودہ حکومت ایک حد تک مسلمانوں کے لئے تعلیمی مواقع بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے ؛ لیکن یہ مسلم سماج کی پسماندگی کے لحاظ سے اب بھی بہت کم ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر بھی اس کے لئے کو ششیں ہوں اور مسلمان تنظیمیں بھی ایسے ادارے قائم کریں جوان مسلمان نوجوانوں کی مدد کریں ، جوبعض دفعہ بہت معمولی اسباب کی بناء پر تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیتے ہیں ، نیز مسلمان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعلی مقابلاتی امتحانات کے لئے تیارکریں ۔
۳)مسلمان تاجروں ، صنعت کاروں اور کا شتکاروں کے لئے رہنما اداروں کی بھی ضرورت ہے جن میں ماہرین ایسی چیز وں کی نشاندہی کریں جن کی تجارت مفید ہوسکتی ہے ، کونسی صنعت اس وقت اس کے حالات کے لحاظ سے بہتر ہوسکتی ہے اورکس علاقہ میں کونسی کا شت بارآورہو سکتی ہے ، اور اس کے لئے کیا مواقع ہیں ؟ ان کے بارے میں معلومات فراہم کریں ، اسی طرح مسلمان تاجر ، کا شت کار اور صنعت کار اپنی پیداوار کو کس طرح اور کہاں برآمد کرسکتے ہیں ، اس کی رہنمائی کریں ، ایسے رہنما ادارے مسلمانوں کی معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں ۔
۴) ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کوتجارت کی طرف راغب کیا جائے اور اس کے لئے ان کاذہن بنایاجائے؛ کیوں کہ تجارت خود اختیاری چیز ہے ، عام قسم کی تجارت میں نہ حکومت کی مدد ضروری ہے نہ پرائیوٹ کمپنیوں کی ؛ بلکہ حوصلہ ، شعور اور محنت کی ضرورت ہے اور اکثرفقہاء کے نزدیک تجارت کو کسب کی دوسری صورتوں پر فضیلت حاصل ہے ، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود تجارت فرمائی ہے ؛حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تاجر تھے ، اور زیادہ تر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذریعہ معاش یہی تھا ۔
۵) ناخواندہ اور کم تعلیم یافتہ مسلمان مردوں اور خواتین کو باعزت روزگارسے مربوط کرنے کے لئے اسلامی شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے مائکرو فائنانس (Micro finance ) کا نظام قائم کرنا بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے ، اس طرح نہ صرف سماج کے غریب لوگ باعزت طورپرزندگی گزارنے کے لائق ہو سکیں گے ؛ بلکہ اس سے غربت سے پیداہونے والی سماجی برائیوں کو بھی دور کیا جاسکتاہے
شمع فروزاں
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی
۲۴/جون ۲۰۱۱ء
اسلام نے کسب معاش کی تر غیب دی ہے ، اور اس کو بعض دوسرے مذاہب کی طرح تقوی اور خد ا پرستی کے مغائر قرار نہیں دیا۔معیشت کے سلسلے میں اگر اسلام کے بنیادی تصور کو واضح کیا جائے تو انہیں چند نکات میں اس طرح بیان کیاجاسکتاہے :
)الف ) زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح معیشت کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات اعتدال پرمبنی ہیں ،ا سلام نے مال کو ’’ خیر‘‘ (البقرۃ : ۲۱۵) اور ’’فضل الہی ‘‘ (الجمعہ : ۱۰) سے تعبیر کیاہے ، جس سے ظاہرہے کہ مال کے حقوق اداکرتے ہوئے اسے حاصل کرنا اسلام کی نظرمیں کوئی مذموم بات نہیں ہے ، بلکہ مباح اور بعض حالات میں واجب ہے ، قرآن مجید میں ۳۲مواقع پر تو اسلوب وتعبیر کے قدرے فرق کے ساتھ صرحتاً زکوۃ دینے کی تلقین کی گئی ہے ، اور صرف ایک آیت میں زکوۃ لینے کا ذکر فرمایاگیاہے ، یہ اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ قرآن چاہتاہے کہ امت میں زکوۃ دینے والے مرفہ الحال افراد زیادہ ہوں اور زکوۃ لینے والے تنگ دست حضرات کم ہوں ، اسی کو رسول اللہ ﷺ نے : ’’ الید العلیا خیرمن الید السفلی ‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب لاصدقۃ إلاعن ظہر غنی، حدیث نمبر : ۱۳۶۱) سے تعبیرفرمایا ہے ، اور نماز کے بعد کسب حلال کو اہم ترین فریضہ قراردیاہے : ’’ کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ‘‘ ، اس لئے مسلمانوں کی معاشی ترقی کے سلسلہ میں غورکرنا ، اس مسئلہ کے لئے منصوبہ بندی کرنا اور امت کے پسماندہ لوگوں کو معاشی ترقی کے اعتبارسے اوپراٹھانے کی کوشش کرنا ایک مستحسن عمل اور اجتماعی فریضہ ہے ۔
(ب) معیشت کے سلسلہ میں اسلام کے بنیادی تصورات میں سے یہ بھی ہے کہ کسب وصرف یعنی مال کا حاصل کرنا اور اس کا خرچ کرنا اس طورپر ہوکہ وہ افراداور سماج کے لئے نفع بخش ہو ، نقصان دہ نہ ہو؛ اسی لئے قمارکو منع کیاگیاکہ اس کی وجہ سے کسی معقول سبب کے بغیر بہت سے لوگوں کی دولت ضائع ہو جاتی ہے اور انسان کے اندر بغیر محنت کے دوسروں کا مال ہڑپ لینے کا مزاج پیدا ہوتاہے ، ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کیاگیاجولوگوں کے لئے نقصان دہ ہو ، جیسے : منشیات ، تجارت میں احتکار سے منع کیاگیا ؛ کیوں کہ ذخیرہ اندوزی کا عمل ایک شخص کو فائدہ پہنچاتا ہے اور پورے سماج کو نقصان، اسی طرح خرچ کرنے میں بھی فرداور سماج کے نفع ونقصان کوملحوظ رکھاگیا ؛ فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ؛ کیوں کہ اس سے قو میں معاشی پسماندگی میں مبتلاہوتی ہیں اور تعلیم ، صحت اور دوسرے مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتی ہیں ۔
)ج) اسلام میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کرنہ رہ جائے ؛ بلکہ وہ زیاد ہ سے زیادہ تقسیم ہو اور گردش میں رہے : (مَّا أَفَاء اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ مِنْ أَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُوْنَ دُولَۃً بَیْْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنکُمْ ) (الحشر : ۷) چنانچہ قدرتی وسائل اگر شخصی زمین میں بھی دریافت ہوں تو ان کا معتدبہ حصہ بیت المال کا حق قراردیاگیا؛ تاکہ تمام لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، میراث کا مکمل نظام مقرر ہوا ،زکوۃ وعشر کو واجب قراردیاگیا؛ وغیرہ۔۔۔غرض کہ شریعت میں یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ سماج میں دولت اور اس کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکزہوکررہ جائیں ۔
)د) اسلام میں نفع کا فطری تصورہے ؛ اسی لئے سود کو حرام قراردیاگیا ، سود ایک غیر فطری چیزہے ؛ کیوں کہ خود پیسوں سے پسیے پیدا نہیں ہو سکتے ، اور سود خواریہ فرض کرکے نفع وصول کرتاہے کہ اس کے پیسوں سے لامحالہ پیسوں میں اضافہ ہوگا ؛ اسی طرح اسلام میں انسانی محنت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ؛ کیوں کہ فطری اصول یہ ہے کہ جب تک مال کے ساتھ انسانی محنت کی شمولیت نہ ہووہ نفع آور نہیں ہوتا ، اسی اصول پر اسلا م میں استشمار کے طریقوں میں مضاربت اور مزارعت شامل ہے ، مضاربت میں ایک شخض کا سرمایہ ہوتاہے اور درسرے کی محنت ، اور مزارعت میں ایک شخص کی زمین ہوتی ہے اور دوسرے کی محنت ، دونوں صورتوں میں یہ بات بھی ممکن ہے، اگر فریقین کی رضامندی ہو۔کہ محنت کارکے نفع کا تناسب زیادہ رکھاجائے ۔
اسلام کے نظام معیشت میں،جیساکہ عرض کیاگیا ۔۔بلکہ پورے نظام حیات میں اس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایساعمل نہیں ہوناچاہئے ،جوفطرت سے بغاوت پر مبنی ہو ؛ اسی لئے : تلقی جلب ، بیع حاضر للبادی ، تناجش اور احتکار وغیرہ کو منع کیاگیا ؛ کیوں کہ ان تمام صورتوں میں قیمتوں میں غیر فطری اتارچڑھا ؤپیدا کیا جاتاہے ، آج کل تشہیر ی وسائل (Advertising )کے ذریعہ مصنوعی طورپر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے ، یہ بھی اسلام کی نظرمیں پسندیدہ نہیں ہے ؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے تجارت میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کو بار بار منع فرمایا ہے اور کسی چیز کے فائدہ کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے نقصانات کے پہلوپر پرد ہ ڈالنا بھی جھوٹ میں داخل ہے ، جس کا زبردست مظاہر ہ موجودہ دور میں اشتہارات کے ذریعہ ہوتارہتاہے ۔
اس عہد میں اسلام کے مقابلے دوبڑے معاشی نظام وجود میں آ ئے ، ایک : اشتراکیت ، جس نے سترسالہ تجربہ کے بعد اپنی جائے پیدائش ہی میں دم توڑدیا ، اور جہاں اب بھی باقی ہے وہاں بھی اس نے اپنے بعض بنیادی تصورات سے سبکدوشی قبول کرلی ہے ؛ اشتراکیت کی بنیاد دونظریات پرتھی : معاشی مساوات اور اجتماعی ملکیت ۔ اور یہ دونوں ہی باتیں قانون فطرت کے خلاف ہیں ،خدانے انسان کے اندر صلاحیتوں کا فرق رکھا ہے اور معاشی ترقی میں انسان کی صلاحیت اور لیاقت کا بڑاد خل ہے ، اس کے باوجوان سب کے درمیان معاشی مساوات ایک خواب توہوسکتا ہے ، حقیقت نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح افرادکے اندر اپنی املاک میں محنت کرنے اوراسے ترقی دینے کا فطری جذبہ ہوتا ہے ، ایسی چیزجوتنہا اس کی ملکیت نہ ہو ؛ بلکہ سماج کی ملکیت ہو ، اس میں محنت کا جذبہ اس درجہ نہیں پایاجاتا ؛ لیکن اشتراکیت کے نمائندوں نے اجتماعی ملکیت کا تصوردیا اور انفرادی ملکیت کا انکارکیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں محنت کرنے کا فطری جذبہ مفقود ہوتا گیا اور معاشی ترقی رک گئی ، اسلام کا تصوریہ ہے کہ بنیادی ضرورتیں سبھوں کو مہیاہوں ؛ لیکن یہ ضروری نہیں کہ معاشی معیار بھی سب کا ایک ہو ، اسی طرح اسلام انفرادی ملکیت کا قائل ہے ؛ لیکن افراد پر اس بات کو واجب قراردیتاہے کہ وہ اپنے مال میں سماج کا حق محسوس کریں ، نیز شریعت اسلامی میں زیادہ تر قدرتی وسائل کو حکومت کی ملکیت قراردیاگیاہے ؛ تاکہ اس کا نفع زیادہ سے زیاد ہ لوگوں تک پہنچ سکے ۔
اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی اس وقت موت وزیست کی کیفیت میں ہے ؛ کیوں کہ ا س نظام نے افراد کو ایسابے لگام بنادیاہے کہ ان کے لئے کوئی اخلاقی سرحد نہیں ہے ، سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خرابی سود اور قمارکی اجازت ہے ؛ کیوں کہ یہ نفع حاصل کرنے کے غیر فطری طریقے ہیں ، اس میں مال کومبالغہ آمیز اہمیت دی جاتی ہے اور مزدوروں کی محنت کوکوئی خاص درجہ نہیں دیاجاتاہے ، یہ نظام ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتاہے ؛ حالاں کہ یہ سماج کے غریب لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، اس میں مصنوعی طورپر صارفیت کو بڑھایاجاتاہے اور اشتہارات اور بے جاتر غیبات کے ذریعہ سماج کا مزاج بنایاجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو ضروریات پر قانع نہیں رکھے؛ بلکہ خواہشات کاغلام بن جائے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خرچ کرے ؛ تاکہ سرمایہ داروں کوزیادہ سے زیادہ نفع پہنچے ، چاہے غریب لوگ قرض اور فضول خرچی کے بوجھ سے دب کر مرہی کیوں نہ جائیں ۔
ان حالات میں خاص طور پر ضرورت ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کواس کی معقولیت اور منطقیت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھاجائے اور واضح کیاجائے کہ انسانیت کی حقیقی فلاح وبہبود اورمعاشی اعتبارسے عدل کا قائم کرنااس کے بغیر ممکن نہیں ۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے ، جس کو اللہ تعالی نے بے پناہ قدرتی اور افرادی وسائل سے نوازاہے ، تقریباً تمام ہی قدرتی وسائل اس ملک میں موجود ہیں ، اورافراد ی وسائل کا حال یہ ہے کہ ایشیا، یورپ اور امریکہ میں بے شمارہندوستانی ماہرین اور مزدورکام کررہے ہیں ، اور ان کی خدمت کو ہر جگہ تحسین کی نظرسے دیکھا جاتاہے ، ان میں ایک اچھی خاصی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے ، مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یاپہلی بڑی اقلیت ہیں ، اور انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان اسی خطہ زمین میں آبادہیں ، کم وبیش ایک ہزار سال تک اس ملک کے مختلف خطوں پر مسلم سلاطین کی حکومت بھی رہی ہے ؛ لیکن اس وقت مسلمان یہاں انتہائی درجہ پسماندہ ہیں ، چنانچہ ۲۰۰۰۔۱۹۹۹ کے ایک سروے کے مطابق شہری علاقوں میں میں 222۲۴؍ اور دیہاتوں میں 222۳۱کے قریب مسلمان حط غربت سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں ، ایک قومی سطح کے سروے کے مطابق بیس فیصد مالدار لوگ وہ تھے جن کی فی کس آمدنی کا وسط شہر میں 236/۱۱۲۰روپے ماہانہ اور دیہات میں 236 /۶۱۵روپے ماہانہ تھا ، ایسے لوگوں کا اوسط قومی سطح پر بالترتیب 222۱۶ اور 222۱۵فیصد ہے ، اور مسلمانوں میں یہ اوسط صرف 222۶ اور 222۱۲فیصد ہے ۔
معاش کے بنیادی طور پر تین ذرائع ہیں ، تجارت ، ملازمت اور صنعت ۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا تجارت کی طرف رجحان مسلمانوں کے دور حکومت ہی سے کم تھا ، پھر آزادی کے بعد بہت سے مسلمان سرمایہ دار پڑوسی ملک کو منتقل ہوگئے اور جویہاں رہے ، فرقہ وارانہ فسادات نے ان کی کمرتوڑدی ؛ کیوں کہ ان فسادات میں مسلمانوں کی تجارت اور معیشت کو خاص طور پر نشانہ بنایاجاتاتھا ۔
مسلمانوں میں ملازمت کا رجحان زیادہ تھا ؛ لیکن چوں کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہدمیں مسلمان پیش پیش تھے اور انگریزبھی ان کو اپنا بڑ ادشمن خیال کرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ چوں کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے چھینی گئی ہے ؛ اس لئے وہی ہماری حکومت کے اصل باغی ہیں ، اور ان کو زیر کرنا اور محروم کرنا ضروری ہے ؛ اس لئے منصوبہ بند طور پر مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمت کے مواقع محدود کردئیے گئے ، آزادی کے بعد نقل مکانی اور اردو زبان کی سرکاری حیثیت ختم کردینے کی وجہ سے ملازمت میں ان کا تناسب اور کم ہوگیا ، فرقہ وارانہ تعصب نے بھی مسلمانوں کو بے حد نقصان پہنچایا ، صنعتی ترقی کے لئے کثیر سرمایہ اور قانونی سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے ، چنانچہ معاشی پسماند گی اور ملک کی انتظامیہ میں فرقہ پرست افسروں کے درآنے کی وجہ سے صنعت میں بھی ان کا حصہ کم سے کم تر ہو تا چلاگیا ۔
حضرات ! اسی پس منظرمیں موجود ہ حالات میں ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی ترقی کے لئے چند امور پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے :
۱) مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بہت محدود ہوگئے ہیں ؛ کیوں کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دیاہے اور بینک کا نظام اصلاً سود پر مبنی ہے ؛ اسی لئے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد منافع حاصل کرنے کے لئے بینکوں میں اپنی رقم محفوظ نہیں کرتی، یہی حال انشورنس کمپنیوں کا ہے کہ سود وقمار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا دیندار طبقہ اختیاری طور پر انشورنس سے استفادہ نہیں کرتا ، اسٹاک ایکسچینج میں گوان کے لئے گنجائش موجودہے ؛ لیکن بہت سی کمپنیاں وہ ہیں جن کے کاروبار جواز کے دائرہ میں نہیں ہیں ؛ اس لئے و ہ میچول فنڈ سے بھی استفادہ نہیں کرپاتے ؛ البتہ یہ خوش آئند بات ہے کہ بعض ایسے ادارے قائم ہوگئے ہیں جوحلال وحرام کمپنیوں کے بارے میں نشاندہی کرتے ہیں ۔
ان حالات میں ہندوستان میں اسلامی مالیاتی اداروں کا قیام نہایت اہمیت کا حامل ہے ، اس سے ایک طرف سرمایہ کاروں کو حلال نفع مل سکے گا ، اور ممکنہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسلامی تکافل سے مددلی جائے گی ، اگر ہندوستان میں اسلامی بینکاری شروع ہو جائے تو امید کی جاتی ہے کہ بہت سے مسلم مما لک کے سرمایہ کار بھی ان کے واسطہ سے یہاں اپنا سرمایہ مشغول کریں گے ؛ اس لئے اگر حکومت ہند اسلامی بینکاری کا دروازہ کھولتی ہے ، تو اس سے نہ صرف مسلمانوں کی دیرینہ آرزوپوری ہوگی اور انہیں معاشی ترقی حاصل ہوگی ؛ بلکہ ملک کوفائدہ پہنچے گا ۔
۱)دوسرااہم مسئلہ مسلمانوں میں تعلیمی اوسط کو بڑھانے کاہے ، ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں خواندگی کا اوسط ۵۹/فیصد سے کچھ او پرہے ، یہ ہندوستان میں بسنے والی تمام مذہبی اکائیوں میں سب سے کم شرح خواندگی ہے ورنہ جین کمیونٹی میں عام شرح خواندگی ، ۹۴/فیصد اور خواتین میں ۹۱/ فیصد کے قریب ہے یہاں تک کہ بودھ فرقہ میں بھی جوپسماندہ ترین سمجھے جاتے ہیں ، شرح خواندگی ۷۳/ فیصد ہے ۔
2000 کی مردم شماری کے مطابق ۱۵/ سال اور اس سے زیادہ عمر کے مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب پرائمری سطح تک 25.40، فیصد، مڈل میں 13.86 فیصد سکنڈری میں 7.78فیصد ، ہائر سکنڈری میں 3.43فیصد اور گر یجویشن اور اس سے اوپر2.52فیصدہے ، مسلمانوں میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد 61.9فیصد ہے ، جب کہ اسکول جانے والے بچوں کی قومی شرح 72%فیصد ہے ، چھ تا چودہ سال کی عمر میں تلیمی سلسلہ منقطع کرنے والے بچوں کا اوسط مسلمان سماج میں 7%۰فیصد ہے ، جبکہ قومی سطح پر یہ تناسب 4.8% ہے ۔۔۔ اگر چہ گز شتہ دودہائیوں سے مسلمانوں میں تعلیمی رجحان بڑھاہے اور جنوبی ہندکی ریاستوں میں مسلمانوں نے اپنے تعلیمی ادارے بھی بہ کثرت قائم کئے ہیں ، مگراب بھی تعلیم میں ہم کافی پسماندہ ہیں ۔
یوں تو ہمیشہ سے ہی معیشت کا تعلق تعلیم سے رہاہے ، مگر موجودہ دورمیں معاشی ترقی کے لئے اس کی اہمیت وضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے ، جب تک تعلیمی اعتبارسے مسلمانوں کی حالت بہتر نہ ہو ، وہ معاشی پسماندگی کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکتے ، موجودہ حکومت ایک حد تک مسلمانوں کے لئے تعلیمی مواقع بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے ؛ لیکن یہ مسلم سماج کی پسماندگی کے لحاظ سے اب بھی بہت کم ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر بھی اس کے لئے کو ششیں ہوں اور مسلمان تنظیمیں بھی ایسے ادارے قائم کریں جوان مسلمان نوجوانوں کی مدد کریں ، جوبعض دفعہ بہت معمولی اسباب کی بناء پر تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیتے ہیں ، نیز مسلمان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعلی مقابلاتی امتحانات کے لئے تیارکریں ۔
۳)مسلمان تاجروں ، صنعت کاروں اور کا شتکاروں کے لئے رہنما اداروں کی بھی ضرورت ہے جن میں ماہرین ایسی چیز وں کی نشاندہی کریں جن کی تجارت مفید ہوسکتی ہے ، کونسی صنعت اس وقت اس کے حالات کے لحاظ سے بہتر ہوسکتی ہے اورکس علاقہ میں کونسی کا شت بارآورہو سکتی ہے ، اور اس کے لئے کیا مواقع ہیں ؟ ان کے بارے میں معلومات فراہم کریں ، اسی طرح مسلمان تاجر ، کا شت کار اور صنعت کار اپنی پیداوار کو کس طرح اور کہاں برآمد کرسکتے ہیں ، اس کی رہنمائی کریں ، ایسے رہنما ادارے مسلمانوں کی معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں ۔
۴) ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کوتجارت کی طرف راغب کیا جائے اور اس کے لئے ان کاذہن بنایاجائے؛ کیوں کہ تجارت خود اختیاری چیز ہے ، عام قسم کی تجارت میں نہ حکومت کی مدد ضروری ہے نہ پرائیوٹ کمپنیوں کی ؛ بلکہ حوصلہ ، شعور اور محنت کی ضرورت ہے اور اکثرفقہاء کے نزدیک تجارت کو کسب کی دوسری صورتوں پر فضیلت حاصل ہے ، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود تجارت فرمائی ہے ؛حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تاجر تھے ، اور زیادہ تر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذریعہ معاش یہی تھا ۔
۵) ناخواندہ اور کم تعلیم یافتہ مسلمان مردوں اور خواتین کو باعزت روزگارسے مربوط کرنے کے لئے اسلامی شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے مائکرو فائنانس (Micro finance ) کا نظام قائم کرنا بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے ، اس طرح نہ صرف سماج کے غریب لوگ باعزت طورپرزندگی گزارنے کے لائق ہو سکیں گے ؛ بلکہ اس سے غربت سے پیداہونے والی سماجی برائیوں کو بھی دور کیا جاسکتاہے