Saturday, August 27, 2011

مصافحہ کا مسنون طریقہ


مصافحہ کا مسنون طریقہ
دین اسلام ایک جامع مذہب ہےجو زندگی کے تمام شعبوںمیں انسان کی صحیح رہبری کرتا ہے ،انسانی زندگی کا کوئ مسلھ اس کی دسترس سے باہر نہی ہے ،عبادات ہو یا،سیاسیات ،معاملات ہو یا معاشات،اس کی تعلیمات نے ہر سطح سےانسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیاہے ، نیز اسلامی تعلیمات ہی کی یہ خوبی ہے اس نے انسانیت کو ان تمام کاموں کی تعلیم اور تر غیب دی ہے جو عام ان سانوں کے لیۓ راحت وسکون اورالفت و محبت کا زریعہ بنے اور ان تمام کاموں سے روکا اور منع کیا ہے جو دوسروں کی تکلیف اور اذیت کا باعث ہو-
اسلام کی انہی تعلیمات میں ایک سلام اور مصافحہ بہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےآپس میں سلام کو عام کر نے کا حکم دیا ہے اور اس کو محبت کا زریعہ فرما یا ہے اور سلام ہی کا تتمہ مصافحہ بھی ہے ،اس کا ثبوت بھی احادیث میں موجود ہے –حضرت قتادہ رضی اللہ عنہنے فرمایا:کانت المصافحۃ فی اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم  (بخاری2/926)سلام اور مصافحہ کہ بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں بیان کیۓگیۓ ہیں- حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا:ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفرلھماقبل ان یتفرقا- (رواہ احمدوالترمذی وابن ماجہ)
ان دونوں روایتوں سے یہ بات واضح ہو گئي کہ مصافحہ کر نا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے اور حضرات صحابہ کا طریقہ رہا ہے ، اسی لیۓ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں جو بذات خود محبت ، اتفاق اور مان کا پیغام ہے اور سلام کے ساتھ مصافحہ بھی کرتے ہیں ،سلام اور مصافحہ کر نے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے – مسلمان ہمیشہ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے آیۓ ہیں ، اس لیۓ اس پر زیادہ تفصیل کی ضرورت نہی ہے، لیکن سلام کے بعد مصافحہ کے طریقہ میں اس زمانے کہ بعض یاروں نے اختلاف پیدا کر دیا جو سلام اور مصافحہ مسلمان اظہار محبت کے لیۓ کیاکرتے تھے ،بعضوں کو یہ الفت وہ محبت بھی دیکھی نہ گيئ اس کو بھی آپسی نفرت کا زریعہ بنا دیا گيا،اہل اسلام میں دونوں ہاتوں سے مصافحہ متوارث تھاکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرات صحابہ وہ تابعین کا یہی معمول تھا – حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا :
باب المصافحۃ،اسمیں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنھ  فرماتے ہیں:
علمنی النبی صلی اللہ علیھ وسلم التشھدوکفی بین کفیھ۔(بخاری2/926)
مجھے آپ صلی اللہ علیھ وسلم  تشھد سکھایا،اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیھ وسلم  کے دونوں ہاتوں کے درمیان تھا-
امام بخاری رح نے اس روایت کو مصافحہ کے باب میں نقل کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا تھا کہ وضاحت کے لیۓباب الاخذبالیدین یعنی دونوں ہاتوں سے مصافحہ کا باب علحیدہ قائم فرماکراس میں حضرات تابعین کے عمل کو واضح کرتے ہوۓ فرما یا:حضرت حماد نے حضرت ابن مبارک سے دو ہاتوں سے مصافحہ کیا - (2/9)
اس کے بعد امام بخاری علیھ الرحمہ نےاسی حديث ابن مسعود کو دوبارہ اس باب کے تحت بھی نقل کیاتاکہ دو ہبتھ سے مصافحہ کر نے میں کویئ شبہ باقی نہ رہے اور اس کا سنت رسول ہونااور زیادہ واضح ہوجایۓ- اسی وجہ سے امت مسلمہ میں ہمیشہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ متوارث رہا ہے- ہندوستان میں انگریزکی آمد سے پہلے کسی اسلامی کتاب میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کوبدعت اور خلاف سنت نہی کہا گیا،اس دور میں یہ عجیب واقعہ ہوا کہ مسلمان جب آپس میں ملتے تودو ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،لیکن انگریز جب ایک دوسرے سے ملتے توایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،ان کے اس طریقے کو پہلے نیچریوں نے اپنا یا اور کالجوں وغیرہ میں ایک ہاتھ کے مصافحہ کا رواج شروع ہو گیا،البتہ وہ لوگ،اس کو حاکم قوم کا طریقہ ہی سمجھتے تھے ،پھرنیچری حضرات کی تقلید میں غیرمقلدینحضرات میں بھی صرف دایئں ہاتھ سے مصافحہ کا رواج چل پڑا،البتہ فرق یہ ہو گیا کہ ان دوستوں نے مسلمانوں کے متوارث دو ہاتھ سے مصافحہ کو بدعت اور خلاف سنت قرار دیدیااور انگریزوں اور نیچریوں کے طریق مصافحہ کو سنت نبوی قرار دیدیا‌ ،اہل اسلام کو نبی کے مخالف،نبی پاک کی سنتوں کو مٹانے والا قرار دیدیا،معروف اسلامی طریقے کو مٹانے کا نام احیاء سنت رکھا گیا،اس طرح سلام اور مصافحہ جو آجتک مسلمانوں میں محبت اور معرفت کا زریعہ تھاوہ بھی اختلاف اور شقاق وہ لڑایئ کا زریعہ بن گیا،لیکن چونکہ اس طریقے کو یاروں نے سنت قرار دیدیاتو اب ان سے اس سلسلے میں دلیل کے مطالبے ہوۓتو کہنے لگےکہ بعض احادیث سلام میں اخذ بالید اخذ بیدہ کے الفاظ ملتے ہیں  اور یہ واحد ہے جس سے معلوم ہواکہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیۓ- اہل سنت والجماعت یہ سن کران کی حدیث دانی پر سخت حیران ہوۓ،کینکہ انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضا ہیں ان کے لیۓ بھی بطور جنس ہر زبان میں واحد کا صیغہ بولا جاتا ہے جیسے کوئ کہتا ہے :میں تیرے گھر میں قدم نہی رکھوں گا: ایک قدم بولا جاتا ہے ،مگر مراد دونوں قدم لیۓ جاتے ہيں ،اسی طرح کہا جاتا ہے ، کہ میں میں نے تجھے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا، اس کا یہ مطلب نہی ہوتا کہ صرف ایک ہی آنکھ سے دیکھا تھا،دوسری آنکھ بند کر لیا ،تھا اسی طرح احادیث میں اس طرح کےالفاظ استعمال ہوۓ ہیں جیئسے آپ ‎صلی اللہ علیھ وسلم  نے فرمایا:المسلم من سلم المسلمون من لسا نھ ویدہ  :مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایزا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے – یہاں پر بھی ید واحدہی کا صیغہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہی ہے کہ ایک ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچاۓ اور دوسرے ہاتھ سے تکلیف پہنچایئ جاسکتی ہے – تمام اہل اسلام نے سلام ارومصافحہ کے باب میں لفظ ید سے جنس ید مراد لے کر دو ہاتھ سے ہی مصافحہ کو سنت قرار دیا ہے -
امام بخاری علیہ الرحمہ اپنی تاریخ میں فرما تے ہیں: حدثنی اصحابناوغیرہ عن اسماعیل بن زید وجاءہ ابن مبارک بمکۃ وصافحھ بکلتا یدیہ ۔ (حاشیہ بخاری2/926)
اسماعیل بن ابراھیم فرماتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید کو دیکھا کہ ان کے پاس عبداللہ بن مبارک مکہ مکرمہ میں تشریف لاۓتو آپ نے دونوں ہاتوں سے مصافحہ کیا –
یاد رہے کہ یہ دونوں بزرگ اپنے زمانے میں اماالمحدثین تھے –
حضرت عایئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرما یا:قد بایعتک میں نے تجھے بیعت کیا، حضرت عايئشہ رضی اللہ عنہ   فرماتی ہیں کہ صرف کلام سے بیعت فرما یاہاتھ کر بیعت نہی فرما یا – علامہ قسطلانی ارشاد الساری شرح بخاری اور علامہ عینی عمدۃ القاری شرح بخاری اس کی شرح فرماتے ہیں :ائ لا بالیدکما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین۔ یعنی ہاتھ سے بیعت نہی فرمایا جس طرح مردوں کو بیعت کرتے وقت دونوں ہاتھ سے مصافحہ کیا کرتے تھے-
حضرت مولاناامین صفدراکاڑویرحمہ اللہ نے اپنی کتاب تجلیات میں ایک عجیب لطیفہ لکھا ہے کہ ایک غیر مقلد دوست کو بخاری شریف سے دو ہاتھ سے مصافحہ کی حدیث دکھا یئ گیئ تو تھوڑی دیر خاموش رھنے کہ بعد بولا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیھ وسلم   مصافحہ میں دو ہاتھ تھے لیکن حضرت ابن مسعود کا تو ایک ہی ہاتھ تھا ،میں نبی تو نہی کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کروں،میں چنوکہ نبی نہی حضرت ابن مسعود کی اتباع کرونگا ،تو حضرت نے فرمایا تم جیسے نبی نہی ،اسی طرح ابن مسعود کی طرح صحابی بھی نہی ہو،اس لیۓ تم مصافحہ میں انگوٹھے سے انگوٹھاملا لیا کرو ،نہ تمہارے نبی ہونے کا شبہ ہو نہ صحابی ہونے کا شبہ ہو-
اصلا بات یہ ہے کہ حدیث میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ   دوسرے ہاتھ کی نفی نہی ہے- کس کا دل مانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیھ وسلم    تودو ہاتھ سے مصافحہ فرمایئں اور ابن مسعود ایک ہی ہاتھ بڑہایئں ، بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ   اپنے اس ایک ہاتھ یہ خوبی واضح کر نا چاہتے ہیں کہ میرے ایک ہاتھ کے دو طرف حضور‎ صلی اللہ علیھ وسلم    کی ہتیلیاں تھیں-
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو تمام مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمایۓ اور سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمایۓ - آمین

No comments:

Post a Comment