Friday, April 4, 2014

مختصر تعارف ائمہ حدیث صحاح ستہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر تعارف ائمہ حدیث صحاح ستہ
امام بخاریؒ ::: امام بخاری کا نام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ ہے ، آپ کی ولادت ۱۳؍یا ۱۶؍شوال المکرم ۱۹۴ھ ؁ جمعہ کے روز بعد نماز عصر ہوئی ،آپکی علم حدیث میں مہارت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا معزز لقب ملا ۔امام بخاری کا سب سے بڑا کارنامہ بخاری شریف ہے ،جو قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب کہی جاتی ہے ،اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ ہوا کہ امام بخاری اپنے استاذ اسحاق راہویہؒ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اسحاق کے شاگردوں میں یہ بات ہونے لگی کہ اللہ اگر کسی کو اعلی درجہ کی صحیح درجہ کی احادیث مختصراً جمع کرنے کی توفیق بخش دے تو کتنا بہتر ہوگا۔ اسوقت سے امام بخاری کے دل میں اس کام کے کرنے کا داعیہ پیدا ہوا ۔

چنانچہ آپ کے پاس اس وقت چھ لاکھ احادیث تھیں ،ان میں سے جو احادیث آپ کے پاس آپ کی رائے کے مطابق سند کے اعتبار سے اعلی درجہ کی تھیں ان کو جمع کردیا باقی کو ترک کردیا ۔
بخاری شریف میں تمام احادیث کی تعداد سات ہزار دو سو پچہتر ہے ،(۷۲۷۵) ہیں ،اور مکررات کو حذف کرکے تقریبا چار ہزار (۴۰۰۰)احادیث باقی رہ جاتی ہیں امام بخاری کی وفات ۲۵۶ھ ؁میں عید الفطر کی رات ہوئی ۔

امام مسلم ؒ :::آپ کا اسم گرامی مسلم بن حجاج ہے اور کنیت ابو الحسن ہے ، قشیری قوم سے ہیں اور نیشا پور آپ کا وطن ہے،آپ ۲۰۴ھ ؁ یا ۲۰۲ھ ؁ میں پیدا ہوئے ، آپ بچپن ہی سے طلب حدیث میں منہمک ہو گئے اور مختلف اسلامی ممالک کی طلب علم کے سلسلے میں خاک چھانی ،چنانچہ آپ نے عراق، و شام، مصر، و حجاز کے مشائخ سے خوب استفادہ کیا ،جب امام بخاری اپنی آخری عمر میں نیشا پور پہنچے تو امام مسلم بخاری سے ہی وابستہ ہو گئے اور پھر انکے اسقدر گرویدہ ہوگئے کہ ان کی وجہ سے اپنے استاذ امام ذہیلی کو چھوڑنا پڑا ۔

فن حدیث میں امام بخاری کے بعد آپ ہی درجہ ہے ،جزائری کے قول کے مطابق مسلم شریف کی احادیث کی تعداد مکررات کو حذف کرکے تقریباچار ہزار(۴۰۰۰) ہے ، اور مکررات کے ساتھ احادیث کہ تعداد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) ہے، ایک حدیث کی تلاش میں آپ اس قدر منہمک ہو ئے ،کہ اتنی زیادہ کھجوریں کھالیں کہ وہ آپ کے انتقال کا سبب بن گئی،چنانچہ آپ ۲۴ ؍یا ۲۶رجب ۲۶۱ھ ؁کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، مسلم شریف کے علاہ آپ کی تالیفات میں المسند الکبیر علی اسماء الرجال ،الجامع الکبیر علی الابواب ،کتاب العلل ،کتاب طبقات المحدثین وغرہ قابل ذکر ہیں ۔

امام نسائی :::آپ کا نام احمد بن شعیب بن علی ہے ،کنیت ابو عبد الرحمن ہے آپ خراسان کے شہر نساء کے رہنے والے تھے ،اس وجہ سے نسائی کے نام مشہور ہیں آپ کی پیدائش ۲۱۴ھ ؁ یا ۲۱۵ھ ؁ میں ہوئی آپنے بھی دیگر محدثین کی طرح طلب علم کی خاطر مختلف بلاد اسلامیہ کا رخ کیا ،جب آپ مشر بن سعید بلخی کی خدمت میں طلب علم کی خاطر حاضر ہوئے تو آپ کی عمرصرف پندرہ برس کی تھی آپ وہاں ایک زمانے سے زائد عرصہ مقیم رہے ،آپ امام حدیث اور فن جرح و تعدیل کے ماہر تھے ،آپ کی تالیف نسائی شریف صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے ،بعض لوگوں نے نسائی کو مسلم اور کچھ لوگوں نے بخاری سے بھی زیادہ صحیح قرار دیا ہے،لیکن یہ اقوال درست نہیں ہیں ،آپ کی وفات نہایت مظلومانہ طریقہ پر ہوئی تھی،آپ ۳۰۳ھ ؁میں دمشق تشریف لے گئے وہاں آپ سے امیر معاویہؓ کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے حضرت علیؓ کو امیر معاویہؓ سے افضل قراردیالوگوں نے اس جرم کی پاداش میں آپ کو اس قدر زد وکوب کیا کہ آپ کی موت واقع ہو گئی ،امام دار قطنی کا قول ہے کہ جب ’’نسائی ‘‘ دمشق پہنچے تو لوگوں کے نرغے میں پھنس گئے،اسی حالت میں یہ کہا کہ مجھے مکہ لے چلو چنانچہ آپ ابھی راستے ہی میں تھے کہ وفات پا گئے ، آپ کو صفا و مروہ کے درمیان دفن کیا گیا ،آپکی وفات ۳۰۳ھ ؁ میں بعمر ۸۸؍یا ۸۹؍ سال میں ہوئی ۔

امام ابو داؤد ::: آپ کا نام سلیمان اشعث ہے اور کنیت ابو داؤد ہے آ پ کی پیدائش ۲۰۲ھ ؁میں ہوئی ،آپ سجستان کے رھنے والے تھے اس وجہ سے آپ کو سجستانی کہا جاتا ہے ،آپ نے طلب علم کی خاطر عراق، خراسان ،شام ، مصر،کے علماء کے پاس جاکر استفادہ کیا ،ابو داؤد کے اساتذہ میں احمد بن حنبل ؒ ، عثمان بن ابی شیبہ، قتیبہ بن سعید ،و دیگر ائمہ حدیث ہیں ۔

جب کہ آپ کے شاگردوں میں عبد الرحمان نسائی ،ابو علی اللؤلوی ،اور دیگر بے شمار لوگ ہیں ،مشہور ہے کہ سنن ابی داؤد کا درجہ کتب ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے ،لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ ابو داؤد صحیحین و نسائی کے بعد چوتھے نمبر پر ہے ،کیونکہ امام نسائی کی شرائط ابو داؤد کی شرائط سے اعلی ہیں ابو داؤد کا اصلی وطن بصرہ ہے ، بعد میں بغداد بھی تشریف لے گئے اور بغداد میں اپنی عظیم الشان کتاب ’’ابو داؤد‘‘تصنیف فرمائی آپ کی وفات بصرہ میں ۲۷۵ھ ؁ میں ہوئی ۔ 

امام ترمذی ؒ ::: آپ کا نام محمد بن عیسٰی بن سورۃ بن موسٰی اور کنیت ابو عیٰسی ہے ، شہر ترمذ کی نسبت کی وجہ سے ترمذی کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ بہت بلند پایا محدث ، مایہ ناز فقیہ اور اما جرح و تعدیل ہیں ، آپ کے وثوق علم کی شہادت کے لیے آپ کی تصنیف ’’ترمذ ی شریف ‘‘ کافی ہے ، جس کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ اسمیں حدیث کی تضحیح وتحسین تعلیل ،تضعیف علماء سلف و خلف کے بیان،مجتہد ین کے مذاہب اور انکے دلائل کا وافر حصہ موجود ہے ۔ آپ کے اساتذہ میں قتیبہ بن سعید ،محمود بن غیلان ،محمد بن بشار ، وغیرہ خاص طور پر ذکر کئے گئے ہیں :جبکہ آپ کے تلامذہ میں محمد بن احمدحشیم بن کلب کافی مشہور ہیں ،۔رویات حدیث میں امام ترمذی ؒ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو واسطے ہیں ،وہ کم از کم تین ؍اور زیادہ سے زیادہ دس ہیں آپ کی پیدائش ۲۰۹ھ ؁میں ہوئی ،جبکہ آپ کی وفات ۲۷۹ھ ؁ میں ہوئی ، جامع ترمذی کے علاوہ کتاب الاسماء والکنی،کتاب الشمائل اور کتاب الزھد قابل ذکر تصانیف ہیں ،

امام ابن ماجہؒ :::آپ کا نام محمد بن یزید بن ماجہ قزوینی اور کنیت ابو عبد اللہ ہے آپ قزین کے رہنے والے تھے جو عراق و فارس کا ایک شہر ہے ،آپ ۲۰۹ھ ؁ میں پیدا ہوئے ،حددیث نبوی کی کتابت و تحصیل کی خاطر ’’ترکی‘‘نامی شہر اور بصرہ و کوفہ و بغداد و شام و مصر کا سفر کیا ، بکثرت ائمہ حدیث سے درس لیا ،آپ کے اساتذہ میں ابو بکر بن شیبہ اور اصحاب مالک کافی مشہور ہیں ۔جب کہ آپ کے تلامذہ میں ابن سیبویہ،اسحاق بن محمد ، سلیمان بن یزید ،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔آپ کی تصنیف ابن ماجہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لیکن اس کتاب میں منکر بلکہ موضوع روایات بھی دخل ہیں ،لہٰذاصحح ستہ میں اسکا درجہ اخیر ہے ،سنن ابن ماجہ میں تقریبا چار ہزار احاادیث ہیں آپ کی وفات ۲۷؍رمضان ۲۷۲ھ ؁ بروز دو شنبہ ہوئی ۔

No comments:

Post a Comment