کسی کو گناہ پر عار دلا نے کا وبال
الحمد للہ نحمدہ وسنتعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذڈ باللہ من شرور انفسنا ومن سیآت اعمالینا من یھد ہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ، صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا -اما بعد "
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ي: من عیر اخاہ بذنب قد تاب منہ لم یمت حتی یعملہ
(ترمذی -کتاب صفۃ القیامۃ ،باب مبر 54)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائ کو ایسے گناہ پر عار دلاۓ اور اس گناہ کا طعنہ دے جس گناہ سے وہ توبہ کر چکا ہے تو یہ طعنہ دینے والا شخص اس وقت تک نہی مریگا جب تک وہ خود اس گناہ کے اندر مبتلا نہی ہوجایئگا -مثلا ایک شخص کے بارے میں آپ کو پتہ چل گیا کہ یہ فلاں گناہ گناہ کے اندر مبتلا تھا یا مبتلاہوا ،اور آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ اس نے توبہ بھی کرلی ہے تو جس گناہ سے وہ توبہ کر چکا ہے اس گناہ کی وجہ سے اسکو حقیر سمجھنا یا اس کو عار دلانا یا اسکو طعنہ دینا کہ تم فلاں شخص ہو اور فلاں حرکت کیا کرتے تھے ،ایسا طعنہ دینا خود گناہ کی بات ہے ،اسلیۓ کہ جب اس شخص نے توبہ کے زریعہ اللہ تعلی سے اپنا معالہ صاف کریا اور توبہ کرنے سے گناہ صرف معاف نہی ہوتا بلکہ نامہ اعمال سے وہ عمل مٹا دیا جاتا ہے تو اب اللہ تعالی نے تو اس کا گناہ نامہ اعمال سے مٹادیا لیکن تم اسکو اس گناہ کی وجہ سے حقیر اور ذلیل سمجھ رہے ہو یا اسکو طعنہ دےرہے ہو اور اسکو برا بھلا کہرہے ہو ،یہل عمل اللہ تعالی کو بھت سخت نا گوار ہے -
گناہ گار ایک بیمار کی طرح ہے
یہ تو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ اس نے گناہ سے توبہ کرلی ،اور اگر پتہ نہی ہے کہ اس نے توبہ کرلی ہے یا نہی ۔لیکن ایک مؤمن کے بارے میں احتمال تو ہے کہ اس نے توبہ کرلی ہوگی یا آئندہ توبہ کرلے گا،اس لیۓ اگر کسی نے گناہ کرلیا اور آپ ک توبہ کر نے کا علم بھی نہی ہے ،تب بھی اسکو حقیر سمجھنے کا کوئ حق نہی ہے ،کیا پتہ کہ اس نے توبہ کرلی ہو 'یاد رکھیۓ:نفرت گناہ سے ہونی چاھیۓ ، گناہ گار سے نہی ،نفرت معصیت اور نافرمانی سے ہے ،لیکن جس شخص نے معصیت اور نافرمانی کی ہے اس سے نفرت کرنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہی سکھایا -بلکہ وہ گناہ گار ترس کھانے اور رحم کے قابل ہے کہ وہ بیچارہ ایک بیماری کے اندر مبتلا ہے ،جیسے کوئ شخص کوئ بیماری کے اندر مبتلاہو تو اب اس شخص کی بیماری سے تو نفرت ہوگی ،لیکن کیا اس بیمار سے نفرت کروگے کہ چونکہ یہ شخص بیمار ہے اسلیۓ نفرت کے قابل ہے ؟ ظاہر ہے بیمار کی ذات قابل نفرت نہی ، بلکہ اسکی بیماری سے نفرت کرو اسکو دور کرنے کی فکر کرو ،اس کے لیۓ دعا کرو ،لکن بیمار نفرت کے لایئق نہی ، وہ تو ترس کھانے کے لائق ہے کہ یہ بیچارہ اللہ کا بندہ کس مصیبت کے اندر مبتلا ہو گیا-
کفر قابل نفرت ہے نہ کہ کافر
حتی کہ اگر کوئ شخص کافر ہے تو اس کے کفر سے نفرت کرو ، اسکی ذات سے نفرت مت کرو ،بلکہ اس کے حق میں دعا کرو کہ اللہ تعالی اسکو ہدایت عطا فرماۓ ،آمین - دیکھیۓ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کتنی تکالیف پہنچایا کرتے تھے ، آپ پر تیر اندازی ہو رہی ہے ،پتھر بر ساۓ جارہے ہیں ، آپ کے جسم کے کئ حصے خون سے لہو لہان ہو رہے ہیں ،اسکے باوجود اس وقت زبان پر جو کلمات آۓ وہ وہ یہ تھے :
(اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون )
ایۓ اللہ ، میری قوم کو ہدایت عطا فرما کہ انکو حقیقت کا پتاہی نہی -یہ دیکھیۓ کہ انی معصیت ،کفر،شرک ،ظلم اور زیادتی کے باوجود ان سے نفرت کا اظہار نہی فرمایا -بلکہ شفقت کا اظہار فرماتے ہوۓ یہ فرما یا کہ یا اللہ یہ نا واقف لوگ ہیں -انکو حقیقت حال کا پتہ ہی نہی ہے ،اسلیۓ یہ لوگ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کر ہے ہیں ،اے اللہ ان کو ہدیایت عطا فرما -لہازا جب کسی کو گناہ میں مبتلا دیکھو تو اس پر ترس کھاؤ اور اس کے لیۓ دعا کرو کہ وہ اس گناہ سے بچ جاۓ ،اسکو دعوت وتبلیع کرو ،لیکن اسکو حقیر نہ جانو ،کیا پتہ اللہ تعالی اسکو توبہ کی توفیق دیدیں اور پھر وہ تم سے بھی آگے نکل جاۓ -
حضرت تھانوی کا دوسروں کو افضل سمجھنا
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ کا یہ ارشاد میں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی سنا اور حضرت ڈ اکٹر عبدالحئ صاحب قدس اللہ سرہ سے بھی سنا ہے،وہ یہ کہ میں ہر مسلمان کو اپنے سے حالا اور ہر کافر کو اپنے آپ سے احتمالا افضل سمجھتا ہوں :احتمالا کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ وہ اس وقت کفر کے اندر مبتلا ہے ،لیکن کیا پتا اللہ تعالی اس کو توبہ کی توفیق عطا فرمادے اور وہ کفر کی مصیبت سے نکل جاۓ ،اور اللہ تعالی اس کے درجات اتنے بلند کردے کہ وہ مجھ سے بھی آگے بڑھ جاۓ -اور جو شخص مسلمان ہے صاحب ایمان ہے ،اللہ تعالی نے اسکو ایمان کی دولت عطا فرما ئ ہے ، کیا پتہ کہ اللہ تعالی کے اس کے ساتھ کیا معاملات ہیں ،کیوں کہ ہر انسان کے اللہ تعالی کے ساتھ مختلف معاملات ہوتے ہیں ،کسی کے بارے میں ہم کیا راۓ ظاہر کریں کہ وہ ایسا ہے ، اس لیۓ میں ہر مسلمان کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں -ظاہر ہے کہ اس میں جھوٹ اور غلط بیانی کا احتمال تو نہی ہے کہ ویسے ہی مروتا یہ کہدیا کہ ،میں ہر مسلمان کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں ،،-یقینا ایسا سمجھتے ہوں گے تبھی تو فرمایا -بہر حال ،کسی کو بھی حقیر سمجھنا ،چاہے وہ گناہ اور معصیت کی وجہ سے ہو ، جایئز نہی ہے -
یہ مرض کن لوگوں میں پایا جاتا ہے ؟
یہ حقیر سمجھنے کی بات ان لوگوں میں خاص طور پیدا ہوجاتی ہے جو لوگ دین کی طرف پلٹتے ہیں ،مثلا شروع میں ان کے حالات دین کے اعتبار سے ٹھیک نہی تھے ،بعد میں دین کی طرف آۓ اور نماز روزہ کے پابند ہوگۓ ،اور وضع قطع ،لباس پوشاک ،شریعت کے مطابق بنالیا ،مسجد میں آنے لگے ،نماز با جماعت کے پابند ہو گۓ ----ایسے لوگو ں کے دلوں میں ،شیطان یہ بات ڈالتا ہے کہ تم اب سیدھے راستے پر آگۓ ہو ،اور یہ سب مخلوق جو گناہ میں منہمک ہے ،یہ سب تباہ حال ہیں ،اور پھر اسکے نتیجے میں یہ لوگ انکو حقیر اور کم تر سمجھنے لگتے ہیں -اور حقارت سے ان کو دیکھتے ہیں اور انپر دل خراش انداز میں اعتراض کرنے لگتے ہيں -پھر اس کے نتیجے میں شیطان ان کو عجب میں ،بڑائ میں ،تکبر میں اور خود پسندی میں مبتلا کردیتا ہے ،اورجب انسان کے اندر اپنی بڑائ اور خود پسندی آجۓ تو یہ چیز انسان کے سارے اعمال کو ضائع کرنے والی ہے ،اسلیۓ کہ جب انسان کی نظر اس طرف جانے لگے کہ میں بڑا نیک ہوں اور دوسرے برے ہیں تو بس انسان عجب میں مبتلا ہو گیا اور عجب کے نتیجے میں اس کے سارے اعمال اکارت ہو گیۓ -اس لیۓ کہ وہ عمل مقبول ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیۓ کیا جایۓ اور جس عمل کے بعد انسان اللہ تعالی کا شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے اسکی توفیق عطا فرمایئ -اس لیۓ کسی کے ساتھ حقارت کا معاملہ نہی کرنا چاہیۓ اور کسی کافر اور فاسق وفاجر کو بھی حقیر نہی سمجھنا چاہیۓ-
کسی بیمار کو دیکھے تو یہ دعا پڑھے
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان دوسرے کو کسی بیماری کے اندر مبتلا دیکھے تو یہ دعا پڑھے
(الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلا ہ بھ ،وفضلنی علی کثیرممن خلق تفضیلا )
(ترمذی کتاب الدعوات )
ایۓ اللہ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے اس بیماری سے عافیت عطا فرمایئ جس بیماری میں یہ مبتلاہے ،اور بھت سے لوگوں پر آپ نے مجھے فضیلت عطا فرمائ ،، یعنی بھت سے لوگ بیماریوں میں مبتلا ہیں ،لیکن آپ نے مجھے صحت عطا فرمائ ہے -کسی بیمار کو دیکھکر یہ دعا پڑھنا سنت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلقین فرمائ ہے -ہمارے حضرت ڈاکٹر عبد الحئ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے جب بھی کسی اسپتال کے پاس سے گزر تا ہوں تو الحمدللہ یہ دعا پڑھلیتا ہوں ،اور ساتھ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں 'یا اللہ ان بیماروں کو صحت عطا فرمادے
ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیۓ آیئنہ ہے ، کا مطلب
حدیث شریف میں آتا ہے :
(المؤمن مراۃ المؤمن)
(ابو داؤدکتاب الادب)
ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئنہ ہے ، اگر آدمی کے چہرے پر کوئ داغ دھبہ لگ جاۓ اور وہ آدمی جاکر آیئنے کے سامنے کھڑا ہوجاۓتو وہ آئنہ بتادیتا ہے کہ تمہارے چہرے پر یہ داغ لگا ہوا ہے ، گویا آیئنہ انسان کے عیب بیان کردیتا ہے ،اسی طرح ایک مؤ من بھی دوسرے مؤمن کا آیئنا ہے ،یعنی جب ایک مؤمن کے اندر کوئ عیب دیکھے تو اسکو پیار سے ، محبت سے بتا دے کہ یہ عیب تمہارے اندر موجود ہے ،اسکو دور کرلو ،-جیسے اگر کسی انسانکے جسم پر کوئ کیڑا یا چینٹی چل رہی ہو اور آپ اسکے اور آپ اس کیڑے کو اسکے جسم پر چلتا ہوا دیکھ رہے ہوں تو تو محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ تم اس کو بتادو کہ دیکھو بھائ ! تمہارے جسم پر کیڑا چل رہا ہے ،اسکو دور کرلو -اسی طرح اگر کسی مسلمان بھائ کے اندر کوئ دینی خرابی ہے تو پیار ومحبت سے اسکو بتا دینا چاہیۓکہ تمہارے اندر یہ خرابی ہے ،اسلیۓ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آیئنہ ہے
اللہ ہم سب کو سمجھنے اور اسپر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمایۓ-
آآآآآآآآآآآمیییین
ماءخوذ اصلاحی خطبات
حضرت مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی
mashallah bahot umda mazmoon hai
ReplyDeleteALLAH ham sab ko amal ki taufeeq ata farmaye