Wednesday, November 10, 2010

غیر مقلدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

غیر قلدین کا صحابہ کرام کے بارے میں نقتہ نظراور فکر خیال کیا ہے ؟ تو جب ہم نے اس بارے میں ان کے اکابر اور اصاغر کے خیا لات سے آگاہی حاصل کی وار ان کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو ہمیں بڑے افسو کے ساتھ اس حقیقت کا اظھار کرنا پڑتا ہے کہ ہمیں صحابہ کرام کے بارے میں ان کا عقیدہ اور فکرسراسر ضلا لت و گمراہی کا پرتو نظر آیا،ان کے افکار اور خیالات پر شیعیت کی چھاپ نظر آئ ،صحابہ کرام کے بارے میں ان کے قلم اور زبان سے وہی کچھ اگلتا ہوا نظرآیا،جس کو شیعہ اگلا کرتے ہیںاور صحابہ کرام کی ذات قدسیہ کے بارے میںجو کچھ شیعہ کہتے ہیں، بڑی حد تک وہی سب کچھ غیرمقلدین بھی کہتے ہوے نظر آۓ-میری یہ بات بلا وجہ کی مبالغہ آرائ نہی یا جماعت غیر مقلدین کے خلاف کسی تعصب کا مظاہرہ نہی ہے،بلکہ ایک واقعی حقیقت کا اظھار ہے ،آنے والی سطور میں ہم اس حقیقت کو دلائل وشواہد کی روشنی میںظاہر کرینگے-
غیر مقلدین کے مزہب میںصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو رضی اللہ عنہم کہنامستحب نہی ہے
غیر مقلدین کی جماعت کے مشہور عالم اور محدث نواب وحید الزماں صاحب نے اپنی مشہور کتاب،، کنزالحقائق،، میں اپنی جماعت کا عقیدہ بیان کیا-
ویستحب الترضی للصاحبھ غیر ابی سفیانومعاویۃ وعمروبن العاص ومغیرۃ بن شعبۃ وسمرہ بن جندب-ص۔234 
یعنی صحابہ کرام کو رضی اللہ عنہم کہنا مستحب ہے ،لیکن ابو سفیان،معاویہ،عمرو بن العاص،مغیرہ بن شعبہ،اور سمرہ بن جندب کو رضی اللہ کہنا مستحب نہیں ہے-
صحابہ کرام کے بارے میںاس قسم کا عقیدہ شیعیت اور رافضیت کی پیداوارہے ،محدثین اور اھل سنت والجماعت کا عقیدہ نہیں،یہ روایت کنزالحقائق کے جس نسخے سے میں نے نقل کی ہے اس کا سال طبع 1332 ھ ہے، یہ نسخہ مطبع شوکت الااسلام بنگلور کا مطبوعہ ہے،اسے نوے سال کا عرصہ ہونے جا رہا ہے اور غیر مقلدین نے آج تک اس عقیدے سے برات کا اظہار نہی کیا ،اس لیۓنواب صاحب کایہ فرمان صرف انکی بات نہی ہے،بلکہ تمام غیر مقلدوں کایہ متفق علیہ عقیدہ ہے ، آج اگر کوئ انکار کرتا ہے تو بڑوں اوراکابر کی جماعت کی خاموشی کے بعد ان چھوٹوںاور بعد والوں کے انکار کا کوئ مطلب نہی رہ جاتا-
غیر مقلدین کے عقیدہ میںصحابہ کرام میں سے کچھ لوگ فاسق تھے-(معاذاللہ)
غیر مقلدین کےاکابر نے اس سے بھی آگے بڑھکر کے باتیں کہی ہیں- انہوں نے صحابہ کرام کی مقدس جماعت کےان لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ لوگ معاذاللہ فاسق تھے
۔۔لقولھ تعالی'فان جاکم فاسق بنباءفتبینوانزلتفی ولیدبن عقبھ وکذلک قولھ تعالی'افمن کان مؤمنا کمن کان فاسقا، ومن یعلم ان من الصحا بۃ من ھو فاسق کالولید،مثلھ یقال فی حق معاویۃ وعمرو ومغیرہ وسمرۃ- (نزل الابرارص94ج3)
یعنی فان جاکم فاسق والی آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں اتری ہے ،اسی یہ آیت بھی افمن کان مؤمنا کمن کان فاسقا-اور اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ میں سے کچھ لوگ(معاذاللہ)فاسق بھی تھے –جیسے ولید اور اسی طرح کی بات معاویہ،عمرو،مغیرہ،اورسمرہ کے بارے میںبھی کہی جاۓگی-
نزلالابرار کا یہ نسخہ جس میں بے ہودہ عبارت ہے-1328ھ کا چھپا ہوا ہےاس کی طباعت مشہور غیر مقلد عالم مولانا ابولقاسم سیف بنارسی کے اہتما میں ہوئ تھی،انکے والد کے قائم کردہ پریس سعیدالمطابع بنارس میںیہ کتاب چھپی ہے –اس لیۓ یہ نہی کہاجاسکتا کہ یہ عقیدہ صرف مولانا وحید الزماں صاحب کا ہے ،بلکہ یہی عقیدہ غیر مقلدین کے اکابر کا بھی ہے اور آج تک غیر ملدین کے کسی بڑے عالم نے اس عبارت سے برآت ظاہر نہی کی                        چھپی ۔۔کتبا:جھودمخلصھ،،میں لکھا ہے-
وقد رزقھ اللہ اولادا صالحین منھم المحدث ابوالقاسم البنارسی وھو ایضا من تلامیذ السیدنذیرحسین الدھلوی۔
یعنی محدث سعید دھلوی کو اللہ نے صالح اولاد عطا کی تھی،جن میںمحدث ابوالقاسم بنارسی بھی ہیں یہ مولانا نذیر حسین دھلوی کے شاگردوں میں سے ہے –
غرض یہ کتاب محدث ابن محث کے زیر اہتمام شائع ہو کرپوری جماعت غیر مقلدین کے عقیدہ وہ مسلک کی ترجمان ہے اور یہی وجہ ہے کہ  جامعہ سلفیہ بنارس کی مطبوع کتاب،اہل حدیث کی تصنیفی خدمات میں اس کا بڑے پر زور الفاظ میں تعارف کرایا گیا ہے اور اس کتاب کو فقہ اہل حدیث کی مشہور کتاب بتلایا گیا ہے نزل الابرار اور ہدیۃ المہدی کاص62 میں تعارف موجود ہے جس کی عبارت یہ ہے :
یہ کتابیں بھی اہل حدیث کے موضوع پرہیں اور عوام میں بھت مقبول ہیں ،،-
اور مصنف کتاب کا تعارف ان الفاظ سے کرا یا گیا ہےالشیخ العلام نواب وحید الزماں حیدآبادی،ان شواہد ودلائل کی روشنی میں کسی غیر مقلد کو اس کتاب یے مضامین سے انکار نہی ہونا چاہیۓ اور اگر کوئ ان کتابوں کا انکار کرتا ہے تووہ محض اپنا منہ بچانا چاہتا ہے،میں لکھ چکا ہوں کہ عقائدومسائل کے باب میں بڑوں کی بات کے آگے چھوٹوں کا لا نسلم کہنا لکھنا بے حقیحت امر ہے ،دنیا کا کوئ عقلمند اس کو تسلیم نہی کریگا-
(3)غیر مقلدوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابو بکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان،حضرت علی رضی اللہ عنہم میں کون افضل ہے پتہ نہی ،نوابوحید الزماں ہدیۃ المہدی میں فرماتے ہیں:
ولا نعرف ائ ھؤلاءالخمسۃ افضل وارفع درجۃ عند اللہ بل لکل منھم فضئل ومناقب جمۃ وکثرۃ الفضائل لسیدنا علی ولامامنا الحسن بن علی اذھما جامعان لفضیلۃ الصحابۃوفضیلۃ الاشتراک فی اھل البیت ھذا ھو  قول المحققین-ص294
یعنی ہمیں معلوم نہی کہ ان پانچوں میں سے کون افضل ہے اور کس کا مقام اللہ کہ یہاں اعلی وارفع ہے ان میں سے ہر ایک کی من قبتیں بہت سی ہیں،البتہ فضائل کی کثرت سیدناعلی اورسیدناحسن کو حاصل ہے ،اس لیۓکہ ان کو شرف صحابیت بھی حاصل ہے اور اھل بیت میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے محقیقن کا قول بھی یہی ہے-

  غیر مقلدوں کا مزہب یہ ہے کہ بعد والے صحابہ کرام سے افضل ہوسکتے ہیں
غیر مقلدوں کا ایک مزہب یہ بھی ہے کہ بعدمیں آنے  والےمسلمان صحابہ کرام سےبھی افضل ہو سکتے ہیں،عہد صحابہ کرام کے بعد بہت سے لوگ ایسے بھی ہوۓ جوصحابہ کرام سے افضل تھےمولانا وحید الزماں فرماتے ہیں:
وھذا لا یستلزم ان لا یکون فی القرون اللاحقۃ من ھو افضل من ارباب القرون السابقۃ،فان کثیرا من متاخری علماء ھذہ الامۃ کانوا افضل من عوام الصحابۃ فی العلم والمغرفۃ ونشر السنۃ وھھامما لا ینکرہ عاقل(ص90)
یعنی آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ( خیر القرون قرنی ثم الذین یلو نھم الخ) سے یہ لا زم نہی آتا کہ بعد میں آنے والے لوگ پہلے لوگوں سے افضل نہ ہوں،اس لیۓ‎ کہ بھت سے اس امت کے متآخرین علماء علم ومعرفت مین اور سنت کی نشر واشاعت مین عوام صحابہ سے افضل تھے،اور یہ وہ بات ہے جس کا کوئ عاقل انکر نہی کرسکتا –
ہمین اب تک کسی غیر مقلد عالم کے بارے مین معلوم نہی کہ ہے کہ اس نے نواب وحید الزماں کی اس بات کا انکار کیا ہو،اس لیۓ یہ عقیدہ بھی اس جماعت کا مسلم عقیدہ ہے –
امام مہدی حضرت ابوبکراور حضرت عمررضی اللہ عنہما سے افضل ہیں
 غیر مقلد علماء کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ امام مہدی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے :نواب وحید الز ماں صاحب فرماتے ہیں:
وال محقق ان الصحابی لھ فضیلۃ الصحبۃ مالا یحصل للولی ولا کنھ یمکن انتکون لبعض الاولیاءوجوہ اخری من الفضیلۃ لم تحصل للصحابی کما روی عن ابی سیرین باسناد صحیح ان امامنا المھدی یوکون افضل من ابی بکر وعمر ،ھدیۃ المھدی ص90
یعنی محقق بات یہ ہے کہ صحابی کو صحبت کی فضیلت حاصل ہے ،جو ولی کو حاصل نہی ،لیکن ممکن ہے کہ کچھ ولیوں کو فضیلت کی کچھ دوسری وجہیں حاصل ہوں،جو صجابی کو حا صل نہیں ہیں جیسا کہ ابن سیرین  سے صحیح سند سے مروی ہے کہ ہمارے امام مہدی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے افضل ہونگے-
ہمیں نہی ملوم کہ کسی اہل سنت نے اس دلیل سے حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر حضرت امام مہدی کی فضیلت ثابت کی ہو-
خطبہ جمعہ میں خلفاۓ راشدین کا نام لینا بدعت ہے
غیر مقلدین کا مزھب یہ ہے کہ خطبہ جمعہ میں التزاما خلفاء کرام کا نام لینا بد عت ہے – نواب وحید الزماں فرماتے لکھتے ہیں
ولا یستلزمون ذکرالخلفاءولاذکر سلطان الوقت لکونہ بد عۃ غیر ماء ثورۃ عن النبی واصحابھ-ص110
یعنی اہل حدیث خلفاء اور سلطان وقت کا خطبہ جمعہ میں نام لینے کا التزام نہی کرتے ،اس لیۓ کہ ایسا کرنا بدعت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرما سے یہ منقول نہی ہے –
 صحابی کا قول حجت نہی
غیر مقلدین کے مزہب و عقیدہ میں صحابی کا قول دین وشریعت  میں حجت نہی ہے – فتاوی نذیریہ میں ہے –
دوم آنکہ اگر تسلیم کردہ شود کہ سند ایں فتوی صحیح ست تاہم ازواحتجاج صحیح نیست زیرا کہ قول صحابی حجت نیست-ص340
یعنی دوسی بات یہ ہے کہ  اگر حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا یہ فتوہ صحیح بھی ہے تب بھی بس سے دلیل پکڑ نا درست نہی ہے ،اس لیۓ کہ قول صحابی حجت نہی ہے –
اور نوبا صدیق حسن خان نے عرف الجادی میں لکھا ہے –
حدیث جابر دریں باب قول جابر ست وقول صحابی حجت نیست یعنی حضرت بابر کی یہ بات (لا صلوۃ لمن یقراء ) والی حدیث تنہا نماو پڑھنے والے کے لیۓ ہے حضرت جابر کا قول ہے اور قول صحابی حجت نہی ہو تا –ص38
فتا وی نذیریہ میں حضرت علی  کے بارے میں لکھتے ہیں-
مگر خوب یاد رکھنا چاہیۓکہ حضرت علی کے اس قول سے صحت جمعہ کے لیۓ مصر کاشرط ہونا ہر گز ثابت نہی ہوسکتا –(فتاوی نذیریہ ص594 ج 1)
صحابی کا فعل بھی حجت نہی  
غیر مقلدین کے مزہب میں صحابی کا فعل بھی حجت نہی ہے ،التاج المکلل میں نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں :
وفعل الصحابی لایصلح للحجۃ ص292
یعنی صحابی کا فعل اس لائق نہی ہوتا کہ وہ دلیل شرعی بنے -
صحابی کی راۓ حجت نہی ہے    
غیر مقلدوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحابہ کرام  کی راۓدین میں حجت نہی ہے – عرف ال جادی میں لکھا ہے –
آراۓ اگر سخن ہست در قبول راۓایشاں نہ روایت  یعنی اگر گفتگو ہے تو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی راۓ قبول نہی نہ کہ ان کی روایت-
صحابہ کرام کا فہم بھی حجت نہی ہے
غیر مقلدین کے مزہب میں جس طرح صحابہ کرام کا قول وفعل اور انکی راۓ حجت نہی  ہے اسی طرح صحابہ  کرام کا فہم بھی حجت نہی ہے فتاوی نذیریہ میں ہے :
رابعا یہ کہ( ولوفرضنا ) تو یہ عائشہ اپنے فہم سے فرماتی ہیں ،یعنی حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  ہوتے توآپ عور توں کو مسجد جانے سے منع کردیتے  فہم صحابہ حجت نہی-(ص622ج1)
حضرت عائشہ کی شان میں فتاوی نذیریہ والے مفتی کی گستاخی
اس مسلہ کے ضمن میں کہ حضرت عائشہ نے عورتوں کو مسجد مین جانے والی بات اپنی فہم سے فرمائ ہے جو حجت شرعی نہی ہے – فتاوی نذیریہ کے مفتی نے حضرت عائشہ کی شان میں زبردست گستاخی کی ہے انھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا مخالف بتایا ہے،اور ان کو قرآن کی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لھ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولھ ما تولی ونصلھ جھنم وساءت مصیرا-
   فتاوی نذیریہ کے مفتی کی بات ملاحظہ ہو –
آیت کا ترجمہ یہ ہے : یعنی جو رسول سے اختلاف کرےگاجب کھل چکی ہے اس پر سیدھی راہ اور مؤمنین کے علا وہ راستہ چلے گا تو ہم اس کو وہی حوالے کر دینگے جو اس نے اختیار کیا ہے اور ہم اس کو جہنم میں پہنچادینگے-
پھر اب جو شخص بعد ثبوت قول رسول وفعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے   ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لھ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولھ ما تولی ونصلھ جھنم وساءت مصیرا۔۔ جو حکم صراحتا شرع شریف میںثابت ہو جاۓ اس میں ہر گز راۓ قیاس کو دخل نہ دینا چاہیۓ کہ شیطان اس قیا س سے کہ انا خیر منھ حکم صریح الہی سے انکار کر کے ملعون ہو گیا ،اور یہ بل کل شریعت کوبدل ڈالنا ہے –ص622
فتاوی نذیریہ کے مفتی کی گمراہی ملا حظہ فرمایئں- اس نے در پر دہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیسا زبردست حملہ کیا ہے ،افسوس اس فتوے پر میاں نذیر حسین کا بھی بلا کسی اختلاف دستخط موجود ہے ، مفتی کے اس بے ہودہ کلام کا حاصل یہ ہے –
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی ہے-
(2) حضرت عائشہ  نے اس مسلہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی مخالفت کر کے آیت مذ کورہ کا مصداق ہویں
(3) حضرت عا ئشہ نے اس مسلہ میں قیاس اور راۓ کو دخل دیا ہے –
(4) حضرت عائشہ نے دین کے حکم میں راۓ اور قیاس کو دخل دیکر وہی کام کیا جو شیطان نے انا خیر منھ کہ کر کیا تھا
(5) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا معاذاللہ  یہ کہکر موجودہ وقت عورتوں کو مسجد اور عید گاہ جانا مناسب نہی ہے شریعت ک بدل ڈالنے کی جرات کی ہے –
ناظرین کرام ! ملاحظہ فرمایں کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے جناب میں گستاخیاں بڑے سے بڑا گنہ گار بھی اگر اس کو ایمان ایک ذرہ بھی نصیب ہو کر سکتا ہے ؟
غیر مقلدین خلفاۓ راشدین کے عمل کو مستقل سنت تسلیم نہی کرتے  
تمام اہل سنت وال جماعت کا مسلک یہ ہے کہ خلفاۓ راشدین کا عمل مستقل سنت ہے اور ان کی سنت کی اتباع بحکم حدیث نبوی علیکم بسنی وسنۃ الخلفاء الراشدین لازم ہے امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
فسنۃ الخلفاء الراشدین ھی امراللہ بھ ورسولھ وعلیھ ادلۃ شرعیۃ کثیرۃ-(فتاوی ص108ج4)
یعنی خلفاۓ راشدین کی سنت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور اس پر بہت سے شرعی دلائل ہیں-
لیکن غیل مقلدین کے علماء کہ یل مزہب نہی ہے،ان کا مز ہب یہ ہے کہ ہم خلفاۓ راشدین کی انھیں سنتوں کو قبول کرینگے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول وعمل سے موافق ہونگی
خلفاۓ راشدین کی مستقل سنت دین میں حجت نہی ہے،چنانچہ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی میں(لیکم بسنتی الخ) والی حدیث کی شرح میں اپنی اس بات کو بڑی قوت سے بیان کیا ہے( دیکھوتحفہ)
غیر مقلدین اور حضرت عمر
غیر مقلدین کے اکابر اور اصاغر نے خلفاۓ راشدین میںسے بطور خاص عمر فاروق کو اپنے قلم کا اپنی کتابوں میں بہت نشانہ بنایا ہے،اور ان کی شخصیت کو مجروح کر نے کے لیۓ تمام وہ حربے استعمال کیۓ ہیں جن کا استعمال حضرت فاروق کے بارے میں شیعہ کرتےہیں،ھدف دونوں فرقوں کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات کو مطعون کرنا ہے بس انداز کا فرق ہے –
حضرت عمر موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے اور ان کا شرعی حکم انھیں معلوم نہی تھا
چنانچہ طریق محمدی مین محمد جو نا گڈھی لکھتے ہیں :
جس آؤ سنو بہت سےصاف صاف موٹے موٹے ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے نا میں غلطی کی اور ہمارا اور آپ کا اتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروق اعظم جو نا بے خبر تھے-(ص14)
پھر دس مسلوں میں حضرت عمر کی بے خبری ثابت کر نے بعد محمد جونا گڈھی کا ارشاد ہوتا ہے :
یہ دس مسلے ہوۓ ابھی تلاش سے ایسے اور مسائل بھی مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ان موٹے موٹے مسائل میں جو روز مرہ کے ہیں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے – ص42
اللہ اکبر ! غیر مقلدین میں ایسے بھی دم خم والے علماء ہین جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بھی دینی وشرعی غلطیاں پکڑ تے ہیں-
خلفاۓ راشدین احکام شرعیہ کے خلاف حکم  نافذکرتے تھے
غیر مقلدوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلفاۓراشدین اپنی ذاتی مصلحت بینی کی بنیاد پر احکام شرعیہ اور کتاب و سنت کے خلاف احکام صادرکیا کرتے تھےاور خلفاۓ راشدین کےان احکامات کو امت نے اجمالی طریقے پر رد کر دیا:-
جامعہ سلفیہ کے محقق ریئس احدم ندوی سلفی صاحب فرماتے ہیں:اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی ذاتی مصلحت بینی کی بنیاد پر بعض خلفاۓ راشدین بعض احکام شرعیہ کے خلاف بخیال خویش اصلاح ومصلحت کی غرض سے دوسرے احکام صادر کر چکے تھے ان احکام کے سلسلے میں ان خلفاء کی باتوں کو عام امت نے در کر دیا –(تنویرالآفاق ص107)
اس سلسلے میں مزید ارشاد ہوتا ہے :
ہم آگے چل کر کے کئ ایسی مثالیں پیش کرنے والے ہیں جن میں احکام شرعیہ اور نصوص کے خلاف خلفاۓ راشدین کے طرزعمل کو پوری امت نے اجتماعی طور پر غلط قرار دیکر نصوص اور احکام شرعیہ پر عمل کیا ہے –ص1107 ایضا
اسی سلسلے کا ندوی سلفیموصوف کایہ ارشاد بھی ملا حظہ فرمایئںفرماتے ہیں: مگر اس سے زیادہ واضح مثالیں ایسی موجد ہیں جن میں حضرت عمریا کسی بھی خلیفہ راشد نے نصوص کتاب وسنت کے خلاف اپنے اختیار کردہ موقوف کو بطور قانون جاری کردیالیکن پوری امت نے ؟ان معاملات میں بھی حضرت عمر یا دوسرے خلیفہ راشد کی جاری کردہ قانون کے بجاۓنصوص کی پیرو ہے –ص107
ناظرین کرام موصوف محقق سلفی صاحب کی ان عبارتوں سے مندرجہ ذیل حقائق کا انکشاف ہوتا ہے-
(1) خلفاۓ راشدین احکام شرعیہ کے خلاف احکام جاری کرتے تھے
(2) پوری امت نے اجمالی طریقے پر خلفاۓ راشدین کے ان خلاف کتاب وسنت احکام کو رد کر دیاہے - 
(3) خلفاۓ راشدین کتاب وسنت کے خلاف دینی وشرعی احکام میں اپنا موقوف اختیار کرتے تھے-
(4) خلفاے راشدین کتبا وسنت کے خلاف قانون جاری کرتے تھے-
  ہیں وہ حقائق جو جامعہ سلفیہ بنارس کے سلفی ندوی استاذ کے کلام سے ماخوذ ہیں،اب مسلمان غور فرمایئں کیا اس کے بعد بھی خلفاۓ راشدین کا دین میں کوئ مقام باقی رہ جاتا ہے ،اور خلفاۓ راشدین کی کتاب وسنت خلاف اس جرات بیجا کے بعد بھی ان کو راشد کہنا عقلا ونقلا درست قرار پاۓ گا؟ یا مسلمانوں کو ان کی باتوں پریا ان کی سنتوں پر کسی بھی درجہ میں اعتماد کرنا درست جائز ودرست ہوگا-
خلفاۓ راشدین کے بارے میں غیر مقلدین یہ اندازگفتگو عین رافضیت وشیعیت کے فکر ونظر کا اظہار نہی ہے؟؟؟
آپ غور فرمایئں کہ اگر غیر مقلدوں کا خلفاۓ راشدین کے بارے میں یہ فکر کسی بھی درجہ میں معتبر ہے تو پھر(علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین ) کا کیا معنی رہ جاتا ہے –
              اللہ تعالی ہمیں سمجھ عطا فرمایۓ
          ناوک نے تیر صید نہ چھوڑا زمانے میں
          تڑپے ہے مرغ قبلہ نماآشیانے میں

3 comments:

  1. اب پتہ نہیں دونوں میں کون غلط ہے۔وہ کہتے ہیں کہ حنفیت شیعہ کا ایک گھانئونا روپ ہے۔آپ الزام ان پر لگا کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں ۔ویب ایڈریش دے رہا ہوں خود ہی چیک کر لینا۔
    وہ تو احناف کو اللہ ،رسول،صحابہ اور اولیائ کے گستاخ ثابت کرتے ہیں۔
    http://www.ahnafexpose.com/index.php/en/deobandiat/ulema-deoband-aur-allah-ke-gustakhiaa

    ReplyDelete
  2. میرے بھائی آپ شائد نام نہاد اپل خبیث سے اچھی طرح واقف نہیں اتنے برے انکے عقائد پڑھنے کے باوجود بھی آپ انکی طرف داری کر رہے ہو اللہ آپ کو ہدایت دے

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ معلومات جزاکم اللہ خیرا کثیرا

    ReplyDelete