Monday, November 29, 2010

کامیاب زندگی

ہمارے ہاں ایک کامیاب زندگی کا ذکر جیسے ہی آتا ہے تو ذہن فوراً مال دار لوگوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک طرف غربت بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف امراء کی تعداد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دولت کی نمائش گاڑیوں، گھروں، لباس، زیورات، فرنیچر اور دیگر اسباب زندگی کی شکل میں اس طرح ہورہی ہے کہ لگتا ہے کہ ملک میں دولت کے خزانے امنڈ رہے ہیں۔
    پیسہ کمانا اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اس وقت ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جتنا زیادہ پیسہ پاس ہوگا اتنا ہی دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب بن جاتا ہے۔ سر دست میں دنیا کی بھلائی پر تو کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا البتہ انسان کی آخرت پر پیسہ جس طرح اثر ڈالتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آج اس پر کچھ گفتگو کر لوں۔اس لیے کہ مجھے یقین ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد خوشی یا مجبوری سے دولتمند بننے کی اس ریس میں ضرور شامل ہے یا ہونا چاہتی ہے، جو اس وقت معاشرے میں لگی ہوئی ہے۔
دولتمند کے مسائل
آخرت کے اعتبار سے ایک دولتمند آدمی کا اصل مسئلہ وہ ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے۔
’’اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی (یعنی جنت) میں داخل ہو۔‘‘(کتاب متی)
سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا مطلب یہ نہیں کہ دولتمند جنت میں جا نہیں سکتا۔ وہ صرف یہ بتارہے ہیں کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ امکانات کیسے کم ہوتے ہیں۔
    دولتمندی کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس زیادہ پیسے ہوتے ہیں وہ فوراً ’تکاثر‘ کی اس دوڑ میں شریک ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ قرآن نے سورہ تکاثر میں غفلت بیان کیا ہے۔’تکاثر‘ قرآن کے مطابق لوگوں کی وہ حالت ہے جس میں وہ مال و اسباب میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ لگانا شروع کردیتے ہیں۔
    انسان کارل مارکس کا وہ معاشی حیوان بن جاتا ہے جس کی ساری زندگی پیسہ کمانے اور پھر پیسہ خرچ کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کرنے میں گزرجاتی ہے۔اس کا معاملہ ضروریات اور ذوق جمال کی تسکین تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کا مطمع نظر یہ ہوجاتا ہے میرے پاس ہر وہ چیز ہوجو دوسرے شخص کے پاس ہے۔ یوں اسٹیٹس بلند کرنے کی وہ مخلوط میراتھن سوسائٹی میں شروع ہوجاتی ہے جس کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھاتا ہے اور نہ یہ کبھی ختم ہوتی ہے۔
    مال و دولت، اسٹیٹس، شاندار گھر، نئے ماڈل کی چمکتی دمکتی گاڑیاں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا اور ان جیسی دیگر ان گنت چیزیں انسان کو بڑی اچھی لگتی ہیں۔مگر غفلت ان کا لازمی نتیجہ ہے۔اس غفلت کے بعد آدمی کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ جنت کی حسین ترین بستی میں اپنے لیے کوئی جگہ بناسکے۔اس لیے کہ اس کی ساری توجہ تو دنیا کے Competition میں لگ گئی ۔جس کے بعد اس کے دل سے جنت کی خواہش ہی نکل جاتی ہے۔ اور جس دل سے جنت کی خواہش نکل جائے، وہ کبھی جنت میں نہیں جاسکتا۔
    غفلت کے بعد دولت کا دوسرا بڑا مسئلہ تکبر ہے۔ پیسہ کی قوت خرید بہت زیادہ ہے۔ اس سے انسان وہ سب کچھ خرید لیتا ہے جس کی انسانی معاشرے میں قدر و قیمت ہوتی ہے۔اس کے لیے ہر چیز ممکن ہو جاتی ہے۔ اس لیے پیسے  والا آدمی اکثر خود کو قادر مطلق سمجھتا ہے۔ اس کا نتیجہ غرور اور تکبر کی شکل میں نکلتا ہے۔ تکبر وہ چیز ہے جو انسان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی پیدا ہوجائے تو انسان کی نجات ممکن نہیں رہتی۔ ایک حدیث کے مطابق جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا (مسلم، رقم 91)۔ پھر یہی تکبر ہے جو انسان کو رب کے مقابلے میں سرکشی پر آمادہ کر دیتا ہے۔ جس کا سب سے کامل نمونہ شیطان ملعون ہے جو اپنے تکبر کی بنا پر اللہ کے مقابلے میں کھڑا ہوگیا تھا۔
    دولت کا تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دولت مند آدمی اللہ کی رضا کے لیے تو پیسہ خرچ کرنے کی ہمت کر نہیں پاتا البتہ لوگوں کی واہ واہ کے لیے پیسہ خرچ کرنا اس کے لیے بہت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ ریاکاری ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے شرک کی ایک قسم ہے۔ شرک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
    دولت کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کے اندر لالچ اور ہوس کو پیدا کرتی ہے۔دولت کی ریس میں آخری حد کوئی نہیں ہوتی۔ انسان زیادہ سے زیادہ کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ ایک حدیث کے الفاظ میں ابن آدم کو اگر ایک وادی کے برابر سونا دے دیا جائے تو وہ ایسی دو وادیوں کی خواہش کرے گا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابن آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے۔ (بخاری،رقم6075)۔
    دولت کی یہ ہوس آگے بڑھتی ہے اور انسان حرام وحلال کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر اگلا قدم وہ ہوتا ہے جب انسان ظلم پر اترآتا ہے۔ وہ بندوں کا حق غصب کرتا اور رب کو ناراض کرکے سونے چاندی کے ڈھیر جمع کرتا ہے۔جتنا اس کا زر بڑھتا ہے اتنا ہی وہ بخل میں آگے بڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قبر میں پہنچ جاتا ہے جہاںاس کی قسمت میں ابد تک رونا اور چلانا ہی رہتا ہے۔رہا اس کا مال تو وہ اس کے وارثوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
    دولت کا اگلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسان کو اسراف و تبذیر پر ابھارتی ہے۔ انسان کی جیب میں پیسہ ہو تو وہ ہر دستیاب چیز خریدنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جسے اپنانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے بھائی قرار دیا ہے(بنی اسرائیل27:17)۔ پھر یہیں سے حرام کا وہ دروازہ کھلتا ہے جس میں دولت خرچ کرکے انسان رب کی ناراضی مول لیتا ہے۔کون نہیں جانتا کہ جوا، سٹہ، بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کی منزلیں دولتمندی کی راہ پر چلنے والے کے لیے آسانی سے کھل جاتی ہیں۔
    دولتمندی کا ایک اور عظیم نقصان یہ ہے کہ دولت انسان کے لیے زندگی میں غیر ضروری آسانیاں اور تعیشات پیدا کردیتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو اکثر ان کیفیات سے محروم کردیتی ہیں جو اسے سچا خدا پرست بناتی ہیں۔ انسان جب عجز، تکلیف، محرومی اور بے بسی کے تجربات سے گزرتا ہے تو اس کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنے عجز کے مقابلے میں رب کی عظمت کو دریافت کرسکے۔وہ اس کی قدرت کے مقابلے میں اپنی بے کسی کو جان سکے۔وہ اس کی عطا کے مقابلے میں اپنے محرومی کو جان سکے۔محرومی اور غم و الم انسان کے لیے رونا بہت آسان کردیتے ہیں۔ اور خدا کو اپنے سامنے بے کسی سے روتے بندے بے حد محبوب ہوتے ہیں۔ایک دولتمند آدمی کو کیفیات کے اس مقام پر آنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
دولت مندوں کا مقام
دولت اپنی ذات میں کوئی بری یا بھلی شے نہیں ہے مگر اس میں وہ سارے خطرات موجود ہیں جن کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں جس طرح فقر وافلاس کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اسی طرح دولتمندی کے فتنے سے بھی پناہ مانگی ہے۔
اللھم انی اعوذ بک من فتنۃ النار۔ ۔ ۔ و من شرفتنۃ الغنی و الفقر (بخاری رقم6016)
اے اللہ میں جہنم کی آگ کے فتنے ۔ ۔ ۔ اور امیری و غریبی کے فتنے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو شخص دولت کی آزمائش سے کامیابی سے گزر جائے اور دولتمندی کے باجود اعلیٰ اخلاقی رویے پر قائم رہتا ہے تو اس کے لیے اعلیٰ ترین درجات کے حصول کا دروازہ کھل جاتا ہے۔تنہا انفاق فی سبیل اللہ وہ عبادت ہے جو خالق و مخلوق دونوں کی نظر میں اسے معتبر بنانے کے لیے کافی ہے۔ غریبوں کی مدد کرنا، بے کسوں کی دعائیں لینا، بے آسرا لوگوں کا سہارا بننا اور سب سے بڑھ کر دین کا مددگار بننا انسان کو عظمت و بلندی کی انتہا پر پہنچادیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جو صحابہ کرام عشرہ مبشرہ کی صف میں شامل ہونے کا اعزار رکھتے ہیں اور جو لوگ خلافت راشدہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوئے ،ان میں سے بیشتر بہت دولت مند تھے۔
    یہ کوئی نظری بحث نہیں، ہم سب کا عملی مسئلہ ہے۔اب آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں۔اگر دولتمند بننے کی خواہش ہے تو پھر دولت کے مندرجہ بالا پہلوؤں کو کبھی فراموش نہ کریں۔اوردوسری صورت یہ ہے کہ انسان سادہ زندگی اور قناعت کا راستہ اختیار کرے۔ وہ خواہش کے بجائے ضرورت تک خود کو محدود کردے۔یہ راستہ بظاہر مشکل مگر بڑے سکون کا ہے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
غور فرمائیے!
·      دولت ایک امیر آدمی کی شخصیت پر جو منفی اثرات مرتب کرتی ہے، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔ مصنف کے بیان کردہ اثرات میں تین مزید نکات کا اضافہ کیجیے۔
·      ایک امیر آدمی کو آپ کیا مشورہ دیں گے کہ وہ ان منفی اثرات سے بچ سکے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
از مبشر نذیر

No comments:

Post a Comment