Friday, November 12, 2010

فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا
محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین

فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب
فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ،
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پهنس جاتا هے ،

ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے
وسـوســه 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول الله کی ؟؟
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ،
بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائ میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائ ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائ سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
( فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا )
اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان
از حافظ محمد خان
اخذ شدہ
http://www.haqforum.com/vb/threads/14500-فرقہ-جديد-نام-نہاد-اهل-حدیث-کے-وساوس-واکاذیب/page2
وسـوســه 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکهوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جهوٹا قول کیوں نہ هو ،
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ،


تاریخ ابن خلدون میں هے (( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها ))
فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ،

اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ،
2 = تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑهہ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰
3 = ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰
4 = ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰
5 = اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکهہ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے ( کتاب الآثار ) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں ،
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ،

تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد

وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟
جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ،
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے
وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئ تبحر حاصل نہیں تها ؟؟ جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ،
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا هے
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا هے ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا

تهذيب التهذيب​ ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ( وآخرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟
وسوسه 5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟ یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب هے ،
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں هے ،
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ،
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1 = ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں ، 2 = حافظ ذهبی نے اپنی کتاب
تذکره الحُفاظ ) میں ، 3 = حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ، 4 = حافظ عراقی ، 5 امام دارقطنی ، 6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، 7 = امام سیوطی ،
8 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، 9 = حافظ ابن الجوزی ، 10 = حافظ ابن عبدالبر ،
11 = حافظ السمعانی ، 12 = امام نووی ، 13 = حافظ عبدالغنی المقدسی ،
14 = امام جزری ، 15 = امام تُوربِشتی ، 16 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17 = امام یافعی شافعی ، 18 = علامہ ابن حجرمکی شافعی ، 19 = علامہ احمد قسطلانی ، 20 = علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین
بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟؟
وسوسه 6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئ کتاب نہیں لکهی ، اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرف منسوب کرلیئے هیں ؟؟ جواب = اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بهی کرتے هیں منکرین حدیث کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئ اعتبارنہیں هے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئ اعتبارنہیں هے ، فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہ دیا کہ انهوں نے توکوئ کتاب نہیں لکهی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئ اعتبار نہیں هے ، یاد رکهیں کسی بهی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین هونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں هے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکهنا کوئ شرط نہیں هے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ هونا ضروری هے ، اگرکتاب لکهنا ضروری هے تو خاتم الانبیاء صلی الله نے کون سی کتاب لکهی هے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث هیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ هیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر هونے کے لیئے ضروری هے کہ انهوں نے کوئ کتاب لکهی هو ؟ اگر هر امام کی بات معتبر هونے کے لیئے کتاب لکهنا ضروری قرار دیں تو پهر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ،
لہذا یہ وسوسہ پهیلانے والوں سے هم کہتے هیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکهاو ورنہ ان کی احادیث کو چهوڑ دو ؟؟
اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکهی بهی هیں ، ( الفقه الأكبر ) امام اعظم رحمہ الله کی کتاب هے جو عقائد کی کتاب هے ، « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے هے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکهی هیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بهی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف هے ، اسی طرح ( كتاب الآثار ) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتهہ امام اعظم رحمہ الله هی کی کتاب هے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید هیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا هے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا هے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکرتاهوں ،
1 = جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة =
تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي،
مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے 1332هـ میں طبع هوئ هے دو جلدوں میں ، پهر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے 1396هـ میں طبع هوئ ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا هے ،

2 = مسانيد الإمام أبي حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار =
مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي ، نے 1398هـ میں شائع کی هے ،
3 = مسند الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه =
تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام 1382هـ.
میں طبع هوئ
4 = مسند الإمام أبي حنيفة النعمان =
شرح ملا علي القاري، المطبع المجتبائي،
5 = شرح مسند أبي حنيفة
ملا علي القاري، دار الكتب العلمية، بيروت سے 1405 هـ.
میں شائع هوئ
6 = مسند الإمام أبي حنيفة
تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر ، رياض سے 1415هـ شائع هوئ ،
7 = ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهية ،
المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد
اس مختصرتفصیل سے فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافورهوگیا کہ امام ابوحنیفہ نے کوئ کتاب نہیں لکهی ۰
اس موضوع کے تحت ان شاء الله فرقہ اهل حدیث کے مشہوروساوس وافترءآت واکاذیب کا رد وجواب ذکرکیا جائے گا 
وسوسه = فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر هے یا قرآن و حدیث پر ؟؟جواب = یہ وسوسہ بهی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم هوتا هے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح هے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح هے ، اب اصل سوال یہ بنتا هے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماهرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاهل فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ اهل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ هے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل ناسمجهہ لوگ نام نہاد خودساختہ جاهل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے هیں ،
اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح هے
۰

وسوسه = کیا فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت هے؟؟
جواب = یہ وسوسہ بهی عوام میں پهیلایا جاتا هے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتهہ بغض کی وجہ سے ، آپ کبهی بهی نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئ بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی کی مخالفت هے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لیئے هندوستان میں پیدا کیا گیا ،
باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ هے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا هرمفتی بہ اورمعمول بها مسئلہ سند ودلیل کے ساتهہ ثابت هے ، اور سند سے بهی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر هے ، اوراهل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر هے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتهادات امام ابوحنیفہ اورآپ کے تلامذه کے هیں ،
اورعلماء امت نے مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکهی هیں ، مثال کے طور پر کتاب (( بداية المجتهد ونهاية المقتصد )) علامہ القاضي أبي الوليد ابن رشد القرطبي المالکی کی هے ، اس میں مذاهب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتهہ موجود هیں ، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائ بہترین اورمقبول کتاب هے ، اسی طرح ایک کتاب (( الفقه على المذاهب الأربعة )) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی هے ، اسی طرح ایک کتاب (( رحمة الأمة في اختلاف الأئمة )) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشي الشافعي الدمشقی کی هے ،
اسی طرح امام شعرانی کی کتاب (( المیزان )) وغیرذالک اسی طرح بہت سارے کتب ورسائل علماء اهل سنت کے موجود هیں جس میں مذاهب اربعہ کے مسائل موجود هیں ، توامام اعظم ابوحنیفہ کے مسائل وفقہ بهی ثابت هے اسی لیئے توعلماء اهل سنت امام اعظم ابوحنیفہ کے اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ، تمام علماء متاخرین ومتقدمین ( اگلے پچهلے ) سلف وخلف سب دیگرائمہ کے ساتهہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مذهب اور اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں یہ وسوسہ کہ فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں هے بالکل باطل وفاسد هے ،
اور هم اس وسوسہ کے پهیلانے والے نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے جہلاء سے سوال کرتے هیں کہ تم قرآن مجید کی هر هر آیت حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند کے ساتهہ ثابت کرو الحمد سے والناس تک پڑهتے جاو اور ایک ایک آیت کی سند بهی پیش کرتے جاو ، نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے اگلے پچهلے سب جمع هوجائیں تب بهی پیش نہیں کرسکتے ، اگرنام نہاد فرقہ اهل حدیث کے یہاں تواتر کی کوئ حیثیت نہیں هے صرف سند ضروری هے توپهرسارے قرآن کا کیا کروگے ؟؟ لهذا هم کہتے هیں کہ قرآن مجید کی ایک ایک حرف ایک ایک آیت محفوظ هے اورثابت بالتواتر هے ، بعینہ اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل تواترکے ساتهہ ثابت هیں ، اورالحمد لله دلائل کے اعتبارسے فقہ حنفی اقرب الی الکتاب والسنہ هے ، اور اس بات کا اقرار صرف علماء احناف هی نہیں بلکہ غیرعلماء احناف نے بهی کیا هے

وسوسه = ائمہ اربعہ کے درمیان مسائل میں اختلاف هے اورقرآن وسنت میں کوئ اختلاف نہیں هے لہذا اختلاف وشک سے بچنے کے لیئے ان ائمہ کوچهوڑنا ضروری هے ،

یہ وسوسہ اس طرح بهی پیش کیا جاتا هے کہ
ائمہ اربعہ کی تقلید کی وجہ سے اختلافات پیدا هوئے لهذا ان اختلافات سے تنگ آکرهم نے ان کی تقلید چهوڑدی

جواب = یہ وسوسہ بهی ایک عام ان پڑهہ آدمی کوبہت جلد متاثرکرلیتا هے ، لیکن درحقیقت یہ وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، اس لیئے کہ فروعی مسائل میں اختلاف صرف ائمہ اربعہ کے مابین هی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی تها جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں کہ ( ترمذی ، ابوداود ، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، وغیره ) کتب احادیث میں سینکڑوں نہیں هزاروں مسائل مختلف فیہ مسائل موجودهیں ، اب اس اصول کی بنا پر صحابہ کو بهی چهوڑنا پڑے گا ، لیکن ان شاء الله اهل سنت والجماعت ان وساوس باطلہ کی بنا پر نہ توصحابہ کرام کی اتباع کوچهوڑیں گے اور نہ ائمہ اربعہ کی اتباع کو یہ اور بات هے کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے عوام الناس کو نہ صرف یہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع سے دور کیا بلکہ صحابہ کرام کی اتباع سے بهی دور کیا ، اورمختلف وساوس کی وجہ سے عوام الناس کوفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے اپنی اتباع اورتقلید پرمجبور کردیا ،
1 = اگرصرف اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ اور فقہ کو چهوڑنا ضروری هے ، تو پهر قرآن مجید کے قرآءت میں بهی اختلاف هے سات مختلف قرآئتیں هیں ، اسی طرح احادیث کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک حدیث کو صحیح اور دوسرا ضعیف کہتا هے جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں ، اسی طرح حدیث کے راویوں کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ رُواة کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک راوی کو صادق ومصدوق عادل وثقہ کہتا هے تودوسرا اس کوکاذب وکذاب غیرعادل غیرثقہ کہتا هے ، اسی طرح محدثین کے مابین الفاظ حدیث میں اختلاف واقع هوا هے ایک سند میں ایک طرح کے الفاظ دوسری سند میں مختلف الفاظ هوتے هیں ، حاصل یہ کہ محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع هوا هے ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ ائمہ اربعہ اور فقہ کوچهوڑنا ضروری هے توپهرسب کچهہ چهوٹ جائے گا ، تو پهرحدیث بهی گئ اور قرآن بهی اورصحابہ کرام کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ ان کے مابین بهی فروعی مسائل اختلاف موجود هے ، اب فقہ بهی گئ قرآن وحدیث بهی اورصحابہ بهی توباقی کیا بچا ؟؟
توباقی بچ گیا نفس اماره اور ابلیس اوراس کی ذریت ،
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث انهی وساوس کے ذریعہ عوام الناس کو قرآن وحدیث ، صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ کی راهنمائ سے نکال کر نفس وشیطان کی اتباع میں لگا دیتے هیں ،

2 = یہ وسوسہ اس طرح بهی هم باطل کرتے هیں ، کہ چوده سوسال میں امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ ، محدثین ، مفسرین ، فقہاء ، علماء گذرے هیں ، ان علماء امت نے اپنے قول وفعل زبان وقلم سے دین اسلام کی اورعلوم دینیہ کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی حتی کہ دین کا کوئ گوشہ ایسا نہیں هے جوسلف صالحین کی خدمات جلیلہ سے خالی هو ، لیکن ان حضرات ائمہ میں سے کسی ایک نے بهی ایک کتاب ورسالہ تودرکنار بلکہ ایک صفحہ بهی کسی کتاب میں نہیں لکها ، جس میں یہ کہا گیا هو کہ اے لوگو دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید واتباع گمراهی هے لہذا ان کے قریب بهی نہ جاو ( معاذالله )
حتی کہ هندوستان میں انگریزی دور میں ایک فرقہ جدید پیدا کیا گیا ، اس فرقہ نے گورنمنٹ سے اپنےلیئے ( اهل حدیث ) کا نام الاٹ کرایا ، اوردیگروساوس کی طرح مذکوره وسوسہ بهی اسی فرقہ نے پهیلایا ،
اور عجیب بات یہ هے کہ عام آدمی کوتو یہ کہتے هیں کہ ائمہ اربعہ اور ان کی فقہ میں اختلاف هے لہذا ان کو چهوڑدو اور فرقہ اهل حدیث میں شامل هوجاو ، اب اس عام جاهل آدمی کو کیا پتہ کہ جس فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے اندر میں شامل هورها هوں ان میں آپس میں مسائل وعقائد میں کتنا شدید اختلاف هے ،
فرقہ نام نہاد اهل حدیث کی اندرونی خانہ جنگی پراگرکوئ مطلع هوجائے توان کی اتباع وتقلید تو کجا ان کے قریب بهی نہ پهٹکے گا ، فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے مشائخ واکابر کے آپس میں اختلاف پرمبنی مسائل وعقائد اگرمیں ذکرکروں توبات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اگرکوئ آدمی ان کے آپس کی خانہ جنگی اور دست وگریبانی کی ایک جهلک دیکهنا چاهے تودرج ذیل چند کتب کا مطالعہ کرلیں ،

( فتاوی ثنائیه ، فتاوی ستاریه ، فتاوی علماء اهل حدیث ، فتاوی نذیریه ،
عرف الجادی ، نزل الابرار ، فتاوی اهل حدیث ، لغات الحدیث ، فتاوی برکاتیه ،
وسوسه = الله ورسول نے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیره بننے کا حکم نہیں دیا لہذا یہ سب
بعد کی پیداوار هیں ان سب کو چهوڑنا ضروری هے


جواب = یہ وسوسہ بهی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم هوتا هے لیکن دراصل یہ وسوسہ بهی باطل هے ، الحمد لله هم اهل سنت والجماعت هیں اور اهل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرهیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتهہ باهمی محبت ومودت رکهتے هیں ایک دوسرے کے ساتهہ استاذ وشاگرد کی نسبت رکهتے هیں ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکهتے هیں ، اوراصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تها اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ، اور غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتهاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود هے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید اهل حدیث کا پروپیگنڈه هے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے ، اور پهر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بهی تها ،
اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اهل سنت والجماعت هیں ، اور همارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت هے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے قول باری تعالی ‏{‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اهل سنت والجماعت هیں

وأخرج الخطيب في رواة مالك والديلمي عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى ‏{‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال‏:‏ ‏"‏تبيض وجوه أهل السنة، وتسود وجوه أهل البدع‏"‏‏.‏
وأخرج أبو نصر السجزي في الإبانة عن أبي سعيد الخدري ‏"‏أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ ‏{‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال‏:‏ تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء‏"‏‏.
وأخرج ابن أبي حاتم وأبو نصر في الإبانة والخطيب في تاريخه واللالكائي في السنة عن ابن عباس في هذه الآية قال ‏{‏تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال ‏"‏تبيض وجوه أهل السنة والجماعة، وتسود وجوه أهل البدع والضلالة‏.
تو أهل السنة والجماعة هی فرقة ناجیة اور طائفة منصورة هے ، اور جن کی صفت حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان کی کہ وه میرے اور میرے صحابہ کے طریق پرهوں گے ،

اس باب میں وارد شده چند احادیث صحیحہ ملاحظہ کریں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة أو اثنتين وسبعين فرقة، والنصارى مثل ذلك، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة) قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه (1/44). وجاء في سنن أبي داود (4/197) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
وجاء في صحيح ابن حبان (6247) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).

ان مذکوره بالا احادیث سے تویہ معلوم هوا کہ اس امت میں افتراق ( فرقے ) واقع هوں گے ، لیکن ان روایات میں ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب فرقه ) کی تعیین نہیں کی گئ ، بلکہ دیگر احادیث صحیحہ میں ناجی فرقہ کی تعیین کی گئ هے جودرج ذیل هیں ،
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام أحمد حديث رقم (12229) عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إن بني إسرائيل قد افترقت على اثنتين وسبعين فرقة، وأنتم تفترقون على مثلها، كلها في النار إلا فرقة). اس حدیث سے معلوم هوا کہ ان فرقوں میں سے ایک هی فرقہ کامیاب وناجی هوگا ، اب وه ناجی فرقہ کون سا هے ؟؟
وبيَّن النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الكبير (8/152) عـن أبي الدرداء وأبي أمامة وواثلة بن الأسقع وأنس بن مالك أن من شرط الفرقة الناجية: عدم تكفير أحد من أهل القبلة، فقـال: (ذَرُوا المِرَاء،فإن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلهم على الضلالة إلا السَّواد الأعظم، قالوا: يا رسول الله ومَن السَّواد الأعظم؟ قال: مَن كان على ما أنا عليه وأصحابي، الخ
قال صلى الله عليه وسلم : " إن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة ، كلها في النار إلا واحدة " فقيل له : ما الواحدة ؟ قال : " ما أنا عليه اليوم وأصحابي " . حديث حسن أخرجه الترمذي وغيره .

ان مذکوره بالا احادیث سے معلوم هوا کہ ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب جماعت ) وه هے جو حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت پرعمل پیرا هوگی
یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ما أنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة "
یعنی سنت رسول پرعمل کے ساتهہ ساتهہ سنت صحابہ پربهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں " وأصحابي " فرمایا
تواس عظیم الشان بشارت کی حامل جماعت ایک هی هے اور وه أهل السنة والجماعة هے ، اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی چاروں مسالک أهل السنة والجماعة اسی اصول پر قائم هیں ، توکامیابی ونجات کا معیار ومیزان سنت رسول اور سنت صحابہ هے ، اب هم اس میزان میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو پرکهتے هیں تو وه بظاهر سنت پرتو عمل کا دعوی کرتے هیں لیکن ناجی فرقہ کی دوسری صفت یعنی جماعت صحابہ کی اتباع نہیں کرتے ، حتی کہ ان کے هاں صحابی کا قول فعل فہم کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجماعات کی بهی مخالفت کرتے هیں ( مثلا بیس رکعت تراویح ، طلاق ثلثہ ، جمعہ کے دن اذان ثانی وغیره ) اجماعی مسائل میں صحابہ کی مخالفت کرتے هیں ، یہاں سے ایک عاقل آدمی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حقیقت کومعلوم کرلیتا هے ،
اور پهر فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کسی ایک فرقہ کا نام نہیں هے بلکہ وقت گذرنے کے ساتهہ بیسیوں فرقے اس کی پیٹ سے نکل چکے هیں ،
بطورمثال وعبرت چند بڑے فرقوں کا نام ملاحظہ کریں ،
1 = فرقہ غرباء اهل حدیث
2 = کانفرنس اهل حدیث ( ۱۳۲۸ هہ )
3 = امیرشریعت صوبہ بہار ( ۱۳۳۹ هہ )
4 = فرقہ ثنائیه ( ۱۹۳۹ هہ )
5 = فرقہ عطائیه ( ۱۹۲۹ هہ )
6 = فرقہ شریفیه ( ۱۳۴۹ هہ )
7 = فرقہ غزنویه ( ۱۳۵۳ هہ )
8 = جمیعت اهل حدیث ( ۱۳۷۰ هہ )
9 = انتخاب مولوی محی الدین ( ۱۳۷۸ هہ )
10 = جماعت المسلمین
پهران فرقوں کا آپس میں اختلاف مسائل وعقائد اتنا زیاده هے کہ آدمی حیران وپریشان ره جاتا هے ، ایک دوسرے پرکفروشرک کے فتوے بهی لگائے ،
لیکن ایک عام آدمی کو چونکہ اس فتنہ کی حقیقت کا علم نہیں هوتا ، لہذا وه بہت جلد ان کے وساوس سے متاثرهوجاتا هے ، اگراس کو ان کے اندر کے فرقوں اور آپس میں دینگہ مشتی کا حال معلوم هوجائے توکبهی ان کے قریب بهی نہ جائے
۰
وسوسه = فقہ تابعین کے دور کے بعد ایجاد هوئ لہذا اس کو چهوڑنا ضروری هے اور قرآن وحدیث پرعمل کرنا چائیے نہ کہ فقہ پر

جواب = حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب ( اعلام الموقعین ) میں یہ تصریح کی هے کہ بڑے فقہاء صحابہ کرام کی تعداد تقریبا ( 130) کے لگ بهگ هے ، اور اسی طرح دیگر ائمہ نے بهی فقہاء صحابہ کرام کی تعداد اور ان کے علمی وفقہی کارناموں پر مفصل بحث کی هے ، یہاں تفصیل کا موقع نہیں هے ، عرض یہ کرنا هے کہ فقہ اور فقہاء جماعت صحابہ کرام میں بهی موجود تهے، هاں یہ بات ضرور هے کہ " علم فقه " کی جمع وتدوین کتابی شکل میں بعد میں هوئ هے ، اور اس سے " علم فقه " کی فضیلت واهمیت پرکوئ فرق نہیں پڑتا ،
حتی کہ " علم حدیث " کی جمع وتدوین کتابی
شکل میں " علم فقه " کے بهی بعد هوئ هے ، اگر " علم فقه " کو اس وجہ سے چهوڑنا هے کہ یہ عهد صحابہ کے بعد لکهی گئ هے تو پهر " علم حدیث " کا کیا بنے گا صحاح ستہ وغیره کتب حدیث تو بہت بعد میں لکهی گئ هیں ،

فقہ کی فضیلت اور تحصیل کے بارے بہت سارے نصوص وارد هوئے هیں ،بلکہ هرایک نص شرعي جس میں علم کی فضیلت وارد هوئ هے فقہ اس میں داخل هے ، الله تعالی کا ارشاد مبارک هے ﴿ وَمَا ‏كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا ‏رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴾ اس آیت مبارکہ میں الله تعالی نے یہ حکم فرمایا کہ مومنین میں ایک جماعت ایسی بهی هو جو " تفقه فی الدین " حاصل کرے ، اورانذار اور دعوت کا فریضہ انجام دیں ، اور یہ انبیاء عليهم السلام کا وظیفہ هے ،
" وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا ‏رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ "
اور تاکہ وه ڈرائیں اپنی قوم کو جب وه لوٹ جائیں ان کی طرف تاکہ وه ڈرجائیں ،
اس سے معلوم هوا کہ وه جماعت جو " تفقه فی الدین " حاصل کرکے اپنی قوم کے پاس جائیں گے توقوم ان کی اتباع وتقلید کرے گی ،
اسی طرح حدیث صحیح میں هے
" ‏من يرد الله به خيرا ‏ ‏يفقهه في الدين "
الله تعالی جس شخص کے ساتهہ بهلائ کا اراده فرماتے هیں تو اس کو " تفقه فی الدین " کی دولت عطا کرتے هیں ،‏اس حدیث سے " تفقه فی الدین " کا مرتبہ وفضیلت بالکل ظاهر هے ،کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فقہ کی طلب وتحصیل کو الله تعالی کی طرف سے بنده کے ساتهہ خیر وبهلائ کے اراده کی علامت قراردیا ،حدثنا ‏ ‏سعيد بن عفير ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏ابن وهب ‏ ‏عن ‏ ‏يونس ‏ ‏عن ‏ ‏ابن شهاب ‏ ‏قال قال ‏ ‏حميد بن عبد الرحمن ‏ ‏سمعت ‏ ‏معاوية ‏ ‏خطيبا يقول ‏سمعت النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏من يرد الله به خيرا ‏ ‏يفقهه في الدين وإنما أنا قاسم والله يعطي ولن تزال هذه الأمة قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله ،
( صحيح البخاري ومسلم واللفظ للبخاری )
اسی طرح ایک حدیث میں هے
" فقيه أشد على الشيطان من ألف عابد "
ایک فقیه شیطان پر هزار عابد سے زیاده بهاری هے
امام ترمذی نے اس حدیث پراس طرح باب قائم کیا هے

» كتاب العلم » باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة
حدثنا محمد بن إسمعيل حدثنا إبراهيم بن موسى أخبرنا الوليد بن مسلم حدثنا روح بن جناح عن مجاهد عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيه أشد على الشيطان من ألف عابد ،
اور ابن ماجه کی رواية میں هے " فقيه واحد أشد على الشيطان من ألف عابد "
اس حدیث سے یہ بهی معلوم هوا کہ شیطان کو " فقیه اور فقهاء " سے بہت بڑی چڑ هے شیطان کو " فقیه اور فقهاء " کے وجود سے بڑی تکلیف هوتی هے ،
اور آج فرقہ نام نہاد اهل حدیث " فقہ اور فقهاء " کے ساتهہ دشمنی کرکے کس کی راه پرچل رهے هیں ؟؟ جواب اس حدیث کی روشنی میں بالکل واضح هے ،

اورحضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما کے لیئے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرح دعا فرمائ ( اللهم فقهه في الدين ، وعلمه التأويل )
لہذا مذکوره بالا تفصیل سے معلوم هوا کہ " فقہ " کے متعلق یہ کہنا کہ یہ کوئ چیز نہیں هے ، بالکل باطل ومردود وسوسہ هے
اور اس سے یہ وسوسہ بهی خود بخود باطل هوگیا کہ " فقہ " تابعین کے دور کے بعد ایجاد هوئ هے

وسوسه = کیا قرآن وحدیث کو چار اماموں کے علاوه کسی نے نہیں سمجها
کیا قرآن کے مخاطب یہ چار هی هیں انهیں کی فہم کا اعتبارهے انهیں کا " فقه " واجب العمل کیوں هے ؟؟ حالانکہ قرآن مجید میں صاف مذکور هے
" ولقد يَسّرنا القرآن للذكرفهل من مُدكر " بے شک هم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے
کے لیئے آسان کردیا کیا هے کوئ نصیحت حاصل کرنے والا ؟
پهر فقہ اور فقهاء کی تقلید اگرشرک نہیں تواور کیا هے ؟؟


جواب = یہ باطل وسوسہ بهی ایک جاهل آدمی بہت جلد قبول کرلیتا هے ، لیکن اس وسوسہ کے جواب میں عرض هے کہ آیت مذکور کا اگریہ مطلب هے کہ قرآن سمجهنے کے لیئے کسی استاذ ومعلم ومفسر کی ضرورت نہیں هے ، اور هربنده خود کامل هے تو پهر " فقه " کے ساتهہ حدیث بهی جاتی هے ، اور اگرقرآن کے ساتهہ اس کےآسان هونے کے باوجود کتب احادیث صحاح ستہ اور ان کے شروح وحواشی کی بهی ضرورت هے ، توپهرکتب " فقه " کا بهی دین سے خارج هونا بڑا مشکل هے ، اگرفہم قرآن کے لیئے حدیث کی ضرورت هے تو فہم حدیث کے لیئے" فقه " کی ضرورت هے ، اگرقرآن سمجهنے کے لیئے حضور صلی الله علیہ وسلم کی ضرورت هے ، تو آپ کی حدیث سمجهنے کے لیئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم کی ضرورت هے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر هے تو " فقه " حدیث کی شرح هے ، اور فقہاء کرام نے دین میں کوئ تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے همارے سامنے رکهہ دیئے ، جو کام همیں خود کرنا تها اور هم اس کے لائق و اهل نہ تهے وه انهوں نے هماری طرف سے همارے لیئے کردیا " فجزاهم الله عنا خیرالجزاء " یہ فقہاء امت توشکریہ وتعریف کے قابل هیں نہ کہ مذمت کے ،
اور جمیع امت نے فقہاء کرام کے عظیم الشان کارناموں کی تعریف وتوصیف کی هے اور ان کو دین شناس اور امت مسلمہ کاعظیم محسن ومحافظ قرار دیا هے ،
اور اگلے پچهلے عوام وخواص سب ان کی تعریف وعظمت میں رطب اللسان
هیں ،اور منکرین حدیث اورنیچریوں اور قادیانی امت نے
یہ دعوی کیا کہ فہم قرآن کے حدیث کی ضرورت نہیں هے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ دین کو ایک بے معنی چیز اور کهیل تماشہ بنا دیا ، کیونکہ ان گمراه لوگوں نےهرکس وناکس کو اختیاردے دیا کہ قرآن کے جو معنی خود سمجهو بیان کرو ،
اسی طرح حدیث کے ساتهہ اگر " فقه " اور اقوال فقہاء اور فہم سلف کی ضرورت نہ هوتو پهر حدیث کا بهی وهی حال هوگا جو منکرین حدیث ،نیچریوں ، اور قادیانیوں وغیره گمراه لوگوں نے قرآن کے ساتهہ کیا ، جس کا جو جی چاهے گا حدیث کا معنی بیان کرے گا ، اور جب حدیث کا معنی غلط هوگا تو قرآن کا معنی کس طرح صحیح ره سکتا هے ، نتیجہ کیا نکلے گا گمراهی اور تباهی بربادی ( نعوذ بالله )
بدقسمتی سے هندوستان میں پیدا شده نومولود نام نہاد فرقہ اهل حدیث نے جہاں دیگر وساوس کا سہارا لے عوام کو دین سے برگشتہ کیا وهاں یہ وسوسہ بهی بڑے زور وشور سے پهیلایا کہ " فقه " قرآن وحدیث کے مخالف چیز کا نام هے ، اور فقہ وفقہاء کی اتباع شرک وبدعت هے ،
اورآج هم مشاهده کر رهے هیں کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء جن کوجاهل عوام شیخ وامام کا درجہ دیتے هیں ، انهی وساوس کے ذریعہ سے عوام کو گمراه کر رهے هیں اور عوام کو سلف صالحین کی اتباع سے نکال کر اپنی اتباع وتقلید میں ڈال رهے هیں ۰
فالی الله المشکی
وهوالمُستعان
وسوسه = جب امام ابوحنیفہ نہیں تهے تو حنفی مقلد کہاں تهے ؟
چاروں مذاهب کے پیروکار اپنے اماموں پرجاکر دم توڑتے هیں ۰
جواب = اس وسوسہ کا الزامی جواب تو یہ هے کہ جب ائمہ حدیث امام بخاری ،امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابوداود ، امام نسائ ، امام ابن ماجہ وغیرهم نہیں تهے اور نہ ان کی کتابیں تهیں ، تو اس وقت اهل اسلام حدیث کی کن کتابوں پر عمل کرتے تهے ؟؟ اور آج کل کے نام نہاد اهل حدیث کہاں تهے ؟؟
کیونکہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث ( 1888 ء ) میں معرض وجود میں آیا ، اور اگرچہ بعض نام نہاد اهل حدیث نے اپنا رشتہ ناطہ حقیقی ( اهل الحدیث ) یعنی محدثین کرام کے ساتهہ جوڑنے کی ناکام کوشش کی هے ، محدثین کرام اور ائمہ اسلام کی کتب میں جہاں کہیں بهی " اهل الحدیث " کا لفظ دیکها تو اپنے اوپر چسپاں کردیا ، ان جهوٹے دعاوی سے ایک جاهل ناواقف شخص کو تو خوش کیا جاسکتا هے ، لیکن اصحاب علم ونظر کے سامنے ان پرفریب دعاوی کی کوئ حیثیت نہیں هے ،
لہذا فرقہ نام نہاد اهل حدیث کا تعلق ( اهل الحدیث ) یعنی حقیقی ائمہ حدیث اورمحدثین کرام کے ساتهہ ذره برابر بهی نہیں هے ،
اور اگر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، اپنے ائمہ پرجاکردم توڑتے هیں تویہ کوئ نقص وعیب کی بات نہیں هے کیونکہ یہ سب ائمہ کرام ائمہ حق وهُدی هیں ،
خیرالقرون کی شخصیات هیں ، جمیع امت ان ائمہ کرام کی امامت وصداقت وجلالت وثقاهت پرمتفق هے ، اور بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ بالاتفاق تابعیت کے عظیم شرف سے متصف هیں ، صحابہ کرام کے شاگرد هیں ، اور بقول امام سیوطی ودیگرائمہ کہ امام اعظم ابوحنیفہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئ کا مصداق هیں ، اورالحمد لله دین میں هماری سند دو واسطے سے
حضورصلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی هے ، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ تابعی هیں اور تابعی صحابہ کا شاگرد هوتا هے اور صحابہ حضورصلی الله علیہ وسلم کے براه راست بلا واسطہ شاگرد هیں ، الحمد لله همیں اس نسبت اور سند پرفخر هے ، لیکن دوسری طرف فرقہ نام نہاد اهل حدیث جو کہ بالاتفاق هندوستان میں انگریزی دور میں پیدا کی گئ ، پوری تاریخ اسلام میں کسی بهی جگہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث کا تذکره کہیں نہیں ملتا ، آپ تاریخ اسلام یا تاریخ فِرق پر کوئ بهی کتاب اٹهالیں کہیں بهی ان کا نام ونشان تک نہیں ملتا ، ان کا سلسلہ انگریزی دور سے چلتا هے حتی کہ صرف هندوستان کی تاریخ پڑهہ لیں کہ سینکڑوں سال تک زمام اقتدار مسلمانوں کے هاتهہ میں رها مثلا مسلمان حکمرانوں میں مغل ، غوری ، تغلق ، لودهی ، خلجی وغیره ایک طویل زمانہ تک هندوستان پرحکمرانی کرتے رهے لیکن ان سب ادوار میں فرقہ نام نہاد اهل حدیث بالکل نظرنہیں آتا ، اور جو حضرات اس فرقہ میں حدیث کی سند بهی رکهتے هیں تو وه بهی میاں نذیرحسین دهلوی سے آگے صرف اورصرف فرقہ نام نہاد اهل حدیث اورغیرمقلدین کے واسطہ سے اصحاب صحاح ستہ تک نہیں پہنچتا ،
بلکہ میاں نذیرحسین دهلوی کے بعد امام بخاری امام مسلم وغیره تک ان کا سلسلہ سند حنفی وشافعی مقلدین کے واسطہ سے پہنچتا هے ،
اب همارا سوال یہ هے کہ رات دن یہ لوگ یہ تکرار کرتے رهتے هیں کہ تقلید شرک وجهالت هے اور مقلد مشرک وجاهل هوتا هے ، اگرتم اپنے اس قول میں سچے هو تو امام بخاری یا کسی بهی امام حدیث تک اپنی ایک ضعیف سند بهی ایسی دکها دو جس میں اول تا آخر سب کے غیرمقلد اور تمہاری طرح نظریات کے حامل افراد شامل هوں ؟؟
قیامت تک یہ لوگ ایسی سند نہیں دکها سکتے ، بس عوام الناس کودهوکہ دینے کے لیئے مختلف قسم کے حیلے بہانے تراشے هوئے هیں ،

مشہور غیرمقلد عالم مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی نے اپنی کتاب ( تاریخ اهل حدیث ) حصہ سوم پریہ عنوان قائم کیا هے
هندوستان میں علم وعمل بالحدیث
اور اس کے تحت یہ نام ذکرکیئے هیں

1 = شيخ رضي الدين لاهوري
2 = علامه مُتقي جونبوري
3 = علامه طاهر گجراتي
4 = شيخ عبدالحق محدث دهلوي
5 = شيخ احمد سرهندي
6 = شيخ نورالدين
7 = سيد مبارك بلگرامي
8 = شيخ نورالدين احمد آبادي
9 = ميرعبدالجليل بلگرامي
10 = حاجي محمد افضل سيالكو ٹي
11 = شيخ مرزا مظهر جان جاناں
12 = شيخ الشاه ولي الله
13 = شيخ الشاه عبدالعزيز
14 = شيخ الشاه رفيع الدين
15 = شيخ الشاه عبدالقادر
16 = شيخ الشاه اسماعيل الشهيد
17 = شيخ الشاه محمد اسحق
( رحـمهم الله تـعـالى اجمعين )
( ص 387 تا 424 ، ملخصا )
( ذالك فضل الله يوتيه من يشاء )
الحمدلله یہ سب کے سب حضرات حنفی المسلک تهے جن کی بدولت بقول مولانا ابراهیم میر سیالکوٹی هندوستان میں حدیث کا علم اور عمل پهیلا اور انهی حضرات محدثین کی اتباع سے لوگوں نے حدیث وسنت کا علم حاصل کیا ،
جیسا کہ میں نے اوپرعرض کیا کہ یہ لوگ عوام کے سامنے تو رات دن یہ راگ الاپتے رهتے هیں کہ مقلد مشرک وجاهل هوتا هے لیکن حقیقت میں قیامت تک اس اصول و موقف کو اپنا نہیں سکتے کیونکہ دنیا میں کوئ ایسی حدیث کی سند ان کو نہیں مل سکتی جس میں سب کےسب ان کی طرح غیرمقلد هوں ، بلکہ تمام اسناد اصحاب صحاح ستہ وغیرهم ائمہ تک مقلدین علماء کے واسطہ سے پہنچتی هیں ، اور بقول ان کے مقلد مشرک وجاهل هوتا هے تو حدیث جو همارا دین هے ، یہ لوگ مشرک وجاهل لوگوں کے واسطوں سے لیتے هیں ، ( معاذالله )
الله تعالی ان کو صحیح سمجهہ دے

Join Date
Nov 2009
Posts
139

وسوسه = قرآن وحدیث سے ابوحنیفہ کی تقلید پردلیل دو


جواب = اس وسوسہ کا الزامی جواب یہ هے کہ تم بخاری ومسلم کی اور صحاح ستہ کی تقلید اورحجیت پرقرآن وسنت سے دلیل دو ؟؟
اگر اس سوال کا جواب یہ هے کہ امام بخاری ومسلم وغیره نے تو احادیث هی جمع کی هیں اپنی طرف سے تو کوئ بات نہیں لکهی ، تو هم کہتے هیں کہ امام ابوحنیفہ نے بهی اپنی طرف سے کوئ بات نہیں لکهی بلکہ قرآن وحدیث کی تشریح هی لکهی اور پیش کی هے ،
اور امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ مجتهدین کی تقلید واتباع پر بے شمار دلائل هیں ،
ان میں سے ایک اهم دلیل " اجماع امت " هے ، اور امت محمدیہ کا اجماع کبهی گمراهی پر نہیں هوسکتا ،
(( تقلید اور اس سے متعلق تمام تفاصیل کے لیئے دیکهیئے شیخ الحدیث والتفسیر حضرت العلامہ سرفراز خان صفدر رحمہ الله کی کتاب " الکلامُ المُفید " تعصب وضد کی عینک اتار کر کوئ بهی نام نہاد غیرمقلد اس کتاب کوپڑهے گا تو اس کی اصلاح هوجائے گی ))

وسوسه = تقلید شرک اور جہالت کا نام هے


جواب = یہ باطل وسوسہ عوام میں بہت مشہور کردیا گیا هے ، اور عوام کے ذهن میں یہ ڈال دیا گیا کہ مقلد آدمی الله ورسول کے حکم کے مقابلہ میں اپنے امام کی بات کوترجیح دیتا هے ، اور پهر تقلید کی حُرمت پر قرآن کی وه آیات سنائ جاتی هیں جن میں مشرکین کی مذمت بیان کی گئ هے جو اپنے مشرک وگمراه آباء واجداد کے دین وطریقہ کو نہیں چهوڑتے تهے ، اور کہا جاتا هے کہ تقلید کا معنی هے جانور کے گلے میں پٹہ ڈالنا لہذا ایک مقلد آدمی اپنے امام کا پٹہ گلے میں ڈال دیتا هے ، غرض اس طرح کے بہت سارے وساوس تقلید سے متعلق عوام میں مشہور کیئے گئے هیں ،
تقلید کی حقیقت

خوب یاد رکهیں کہ تقلید " نعوذبالله " الله تعالی کے حکم اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے سنت کے مقابل ومخالف چیز کا نام نہیں هے ، جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے عوام گو گمراه کرنے کے لیئے مشہور کیا هے ،
بلکہ " تقلید " کی حقیقت صرف اور صرف یہ هے کہ ائمہ مجتهدین نے قرآن مجید اور احادیث نبویه اور آثار صحابه سے جو مسائل استنباط ( نکالے ) کیئے هیں ان کو تسلیم کرلینا هی " تقلید " هے ،
کیونکہ علماء امت نے " تقلید " کی تعریف اس طرح کی هے کہ
فروعی مسائل فقہیہ میں غیر مجتهد ( مُقلد ) کا مجتهد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتهد کے پاس اس قول کی دلیل موجود هے ،
مثال کے طور پر " تقلید " کی اس تعریف کی روشنی میں آپ مذاهب اربعہ کی فقہ کی کوئ بهی مستند کتاب اٹهالیں هر مسئلہ کے ساتهہ دلیل موجود هے ،
فقہ حنفی کی مشہور کتاب " هدایه " اٹهالیں هر فقہی مسئلہ کے ساتهہ دلائل شرعیه (یعنی کتاب الله ، سنت رسول الله ، اجماع امت ، قیاس شرعی ) میں سے کوئ دلیل ضرور موجود هے ،
کیا اس عمل کا نام شرک وجہالت هے ؟؟ ( نعوذبالله )
حاصل یہ کہ همارے نزدیک ایک عامی آدمی کا اهل علم کی اتباع وراهنمائ میں دین پرعمل کرنا " تقلید " هے ، اور یہی حکم وتعلیم قرآن نے همیں دیا هے

* لقوله تعالى : " فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون "{سورة النحل ​ 43}

الله تعالی نے اس آیت میں یہ حکم دیا هے کہ اگر تمہیں علم نہ تو اهل علم سے پوچهو ، اور امام اعظم ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم الله اهل علم هیں ، اور ان حضرات کی علمیت امامت وجلالت پرامت کا اجماع هے ، ان حضرات ائمہ کے اقوال واجتهادات کتابی صورت میں همارے پاس موجود ومحفوظ هیں ، اوران حضرات ائمہ کے مذاهب کے ماهر علماء آج بهی موجود هیں اور ان شاء الله قیامت تک موجود رهیں گے ،
اب هم اس آیت مبارکہ کے امرالہی ( فاسألوا أهل الذكر ) کی تعمیل میں امام اعظم ابوحنیفہ کی راهنمائ حاصل کرتے هیں ، اب همارے اس طرز عمل کو اگر کوئ جاهل شرک وبدعت کہے تو کہتا رهے ،
اهل علم سے سوال یعنی ان کی تقلید واتباع کی اهمیت پر ایک حدیث نقل کرتا هوں ، ابن عباس رضي الله عنهما کی روایت هے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں ایک شخص زخمی هوگیا پهر اس کو احتلام هوگیا ( یعنی غسل پرفرض هوگیا ) تو اس کو ( ساتهیوں کی طرف سے ) غسل کا حکم دیا گیا ، لہذا اس نے غسل کیا اور فوت هوگیا ، جب رسول الله صلى الله عليه وسلم کو یہ خبرپہنچی تو آپ نے فرمایا ( قتلوه قتلهم الله ) یعنی انهیں لوگوں نے اس کو مارا الله ان کو بهی مارے ، کیا جاهل وعاجز کی شفاء سوال میں نہیں هے ؟ ۰ یعنی جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تها تو انهوں نے کسی عالم سے کیوں نہیں پوچها ،
وعن ابن عباس رضي الله عنهما: أن رجلاً أصابه جرح على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أصابه احتلام فأمر بالاغتسال، فقُرّ فمات ،فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "قتلوه قتلهم الله ! ألم يكن شفاء العِيّ السؤال؟
(( رواه الإمام أحمد والبخاري (التاريخ الكبير) وأبو داود وابن ماجة والحاكم والبيهقي والدارقطني وأبو يعلى والطبراني (الكبير) وأبو نعيم وابن عساكر
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم هوا کہ جہاں هم نے دین میں حقیقی
اورمستند اهل علم کی رجوع کرنا هے جوکہ ائمہ اربعہ اور دیگرائمہ مجتهدین هیں ، وهاں اهل جهل نام نہاد اهل حدیث سے بهی بچنا هے کیونکہ جاهل کے حکم وفتوی پرعمل گمراهی وتباهی هے ، اور حدیث میں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں کو بد دعا دی جنهوں نے بغیر علم کے مسئلہ بتایا اور اهل علم کی طرف رجوع نہیں کیا ،
آج فرقہ اهل حدیث میں شامل نام نہاد شیوخ نے ائمہ اربعہ کی اتباع وتقلید کو شرک و جہالت کہ کر عوام الناس کودین آزاد کردیا هے ، اور هرجاهل مجهول کو شیخ کا لقب دے دیا گیا جو کہ ( ضلوا فآضلوا ) کی کامل تصویر بنے هوئے هیں ، اس کے باوجود نام اهل حدیث اور سلفی رکها هوا هے ، جب کہ سلف کی سیرت پڑهو اور ان نام نہاد اهل حدیث اور سلفیوں کے کرتوت دیکهو تو واضح هوجاتا هے سلف کے سب بڑے دشمن یہی لوگ هیں

تـرک تـقلید کا فـتنہ لادینیت پرجـاکـردم توڑتا هے

گذشتہ سطور میں نے عرض کیا کہ فرقہ نام نہاد اهل حدیث نے عوام الناس کودین میں آزاد بنانے کے لیئے " تقلید سلف " کے خلاف بہت سارے وساوس پهیلائے هوئے هیں ، اور میرے اس موضوع کا مقصد بهی ان کے مشہور وساوس کی نشاندهی اور اس کا رد کرنا هے ، کیونکہ ایک ناواقف آدمی لاعلمی کی بنا پر ان کے وساوس کو قبول کرلیتا هے ، اور اکثر لوگ جو بے راه هوئے هیں اسی طرح کے مختلف وساوس وکذبات سن کر یا دیکهہ کر راه حق دور هٹے هیں، خوب یاد رکهیں لامذهبیت اور غیرمقلدیت کی اس تحریک کی پیٹ سے بے شمار فتنوں نے جنم لیا ، اور هند و پاک کے تمام گمراه لوگ اور جماعتیں اسی تـرک تـقلید اور غیرمقلدیت کے چور دروازے سے نکلے هیں ،

تقلید واجتهاد کی حقیقت

دین میں کچهہ باتیں تو بہت آسان هوتی هیں جن کے جاننے سب خاص وعام برابر هیں ، جیسے وه تمام چیزیں جن پرایمان لانا ضروری هے یا مثلا وه احکام جن کی فرضیت کو سب جانتے هیں ، چنانچہ هر ایک کو معلوم هے کہ نماز ، روزه ، حج ، زکوه ، ارکان اسلام میں داخل هیں ، لیکن بہت سارے مسائل ایسے هیں جن کو اهل علم قرآن وحدیث میں خوب غور وخوض کے بعد سمجهتے هیں ، اور پهر ان علماء کے لیئے بهی یہ مسائل سمجهنے کے لیئے شرعی طور پر ایک خاص علمی استعداد کی ضرورت هے ، جس کا بیان اصول فقہ کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور هے ، بغیر اس خاص علمی استعداد کے کسی عالم کو بهی یہ حق نہیں هے کہ کسی مشکل آیت کی تفسیر کرے ، یاکوئ مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالے ، اور جس عالم میں یہ استعداد هوتی هے اس کو اصطلاح شرع میں
" مجتهد " کہا جاتا هے ، اور اجتهاد کے لیئے بہت سارے سخت ترین شرائط هیں ، ایسا نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے هر کس وناکس کو اجتهاد کا تاج پہنایا هوا هے ، لہذا عامی شخص کو یہ حکم هے کہ وه مجتهد کی طرف رجوع کرے ، اور مجتهد کا فرض هے کہ وه جو مسئلہ بهی بیان کرے کتاب وسنت میں خوب غور وخوض اور کامل سعی وتلاش کرکے اولا اس مسئلہ کو سمجهے پهر دلیل کے ساتهہ اس پر فتوی دے ،
اجتہاد وفتوی کا یہ سلسلہ عهد نبوی سے شروع هوا ، بہت سے صحابہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے فتوی دیا کرتے اور سب لوگ ان کے فتوی کے مطابق عمل کرتے ، صحابہ وتابعین کے دور میں یہ سلسلہ قائم رها ، هر شہر کا مجتهد ومفتی مسائل بیان کرتے اور اس شہر کے لوگ انهی کے فتوی کے مطابق دین پر عمل کرتے، پهر تبع تابعین کے دور میں ائمہ مجتهدین نے کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے فتاوی کو سامنے رکهہ کر زندگی کے هر شعبہ میں تفصیلی احکام ومسائل مرتب ومدون کیئے ، ان ائمہ میں اولیت کا شرف امام اعظم ابوحنیفہ کوحاصل هے اور ان کے بعد دیگر ائمہ هیں ،
چونکہ ائمہ اربعہ نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر وبیشتر مسائل کو جمع کردیا ، اور ساتهہ هی وه اصول وقواعد بهی بیان کردیئے جن کی روشنی میں یہ احکام مرتب کیئے گئے هیں ، اسی لیئے پورے عالم اسلام میں تمام قاضی ومفتیان انہی مسائل کے مطابق فتوی وفیصلہ کرتے رهے اور یہ سلسلہ دوسری صدی سے لے کر آج تک قائم ودائم هے ،


انکار تقلید کی ابتداء اورانجام

هندوستان میں جب انگریزی عمل داری شروع هوئ تو اس زمانہ میں کچهہ لوگوں کوکهڑا کیا گیا ، ان لوگوں نے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ اگلوں کے فتاوی پر چلنے کی کوئ ضرورت اور ان کی تقلید تو شرک هے همیں تو خود هی قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے هیں ، ان کو لوگوں نے اپنا نام " اهل حدیث یا غیر مقلد " رکها ، اگرچہ بعد میں مختلف اوقات وادوار میں یہ لوگ اپنا نام بدلتے رهے ، لیکن " اهل حدیث یا غیر مقلد " کے نام سے یہ لوگ زیاده مشہور هوئے ،اگرچہ حقیقت میں یہ لوگ بهی مقلد هی هیں ، لہذا اس ترک تقلید کا نتیجہ یہ هوا کہ هندوستان میں دین کے اندر فتنوں کے دروازے کهل گئے ، هر شخص مجتهد بن بیٹها ، سب سے پہلے سر سید احمد خان نے اس راه میں قدم رکها تقلید سے منہ موڑنے کے بعد "غیر مقلد " بنا پهر ترقی کرکے " نیچریت " پر معاملہ جاپہنچا ، ظاهر هے کہ جب فقہاء کرام کی تقلید واتباع حرام ٹهہری تو پهر دین پرعمل کس کی تشریح وتعلیم کے مطابق هوگا ؟؟ ظاهر هے اس کے بعد تو نفس وشیطان هی باقی ره جاتا هے ، یہی حال مرزا غلام قادیانی کذاب ودجال کا هوا تقلید سے منہ موڑنے کے بعد "غیر مقلد " بنا پهر " غیر مقلدیت " میں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچا ، اسی طرح " انکارتقلید " نے هی انکار حدیث کا دروازه بهی کهولا چنانچہ اسلم جیراج پوری کے والد مولوی سلامت الله غیر مقلد تهے ، اسلم جیراج پوری پہلے "غیر مقلد " بنا پهر اپنے باپ سے بهی ایک قدم بڑهایا اور انکارحدیث کا سب سے بڑا داعی بن گیا ، اسی طرح خاکسارتحریک کا بانی عبدالله چکڑالوی پہلے "غیر مقلد " بنا پهر انکار حدیث کا داعی بنا ، اس کے بعد مرزا قادیانی کا هم نام غلام احمد پرویز پہلے "غیر مقلد " بنا پهر اسی چور دروازے سے ترقی کرتے کرتے گذشتہ تمام گمراه لوگوں کو مات دے گیا ، اور انکارحدیث کا جهنڈا اٹهایا اور ساری عمر حدیث وسنت کے خلاف اپنے زبان وقلم سے مذاق اڑاتا رها ، اور انکارحدیث کی تحریک کو گمراهی کے انتہائ حدوں تک پہنچادیا ، اسی طرح ابوالاعلی مودودی بهی اسی چور دروازے سے پہلے نکلا پهر اپنے قلم سے جو کچهہ گمراهیاں پهیلاتا رها وه کسی سے مخفی نہیں هیں ، اسی طرح آج کل " الهدی انٹرنیشنل " کے نام سے ایک فتنہ بڑهتا چلا جارها هے ، جس نے عورتوں کو گمراه کرنے کی ذمہ داری اٹهائ هے ، یہ فتنہ بهی " ترک تقلید " کی پیداوار هے ،
اسی طرح کے اورجتنے بهی فتنے هیں سب " انکار تقلید " کے شاخسانے هیں ،
پہلے آدمی تقلید ائمہ سے منکرهوتا هے پهر غیرمقلد بنتا هے پهر بدزبانی بدگمانی اور خودرائ اور دین میں آزادی اس کو گمراهی کے گڑهے میں ڈال دیتی هے ، تاریخ شاهد هے کہ جب سے مذاهب اربعہ کا جمع وتدوین هوا تمام عوام وخواص نے ائمہ اربعہ کی راهنمائ میں دین پرعمل کرتے رهے ، اور نئے نئے فرقے پیدا هونا بند هوگئے ، اور جب سے تقلید واتباع سلف کا بند ٹوٹا هے لامذهبی اور دینی آزادی کا دور دوره هوگیا ، هرطرف سے نئے نئے فتنے سر اٹهانے لگے اور آج ان فتنوں کی تعداد اتنی زیاده هے کہ شمارکرنا مشکل هے ، اور یہ سب فتنے " غیرمقلدیت " کی پیٹ سے هی نکلے هیں اور نکلتے چلے جارهے هیں ،
الله تعالی اپنے فضل وکرم سے فتنوں کے اس دروازے کوبند کردے
وسوسه = فقہ حنفی اور حدیث میں ٹکراو هے اب عمل کس پرکرنا چائیے ؟
حدیث محمد رسول الله کی هے اور فقہ اماموں کی بنائ هوئ هے ۰


جواب = یہ بہت پرانا وسوسہ اور جهوٹ هے جس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جہلاء نقل در نقل چلے آ رهے هیں ، اور اس وسوسہ کے ذریعہ عوام کو بآسانی بے راه کرلیتے هیں ، اس وسوسہ کے استعمال کا طریقہ یہ هوتا هے کہ کسی مسئلہ میں اگر مختلف احادیث وارد هوئ هوں اور فقہ حنفی کا کوئ مسئلہ بظاهر کسی حدیث کے خلاف نظرآتا هو تو یہ حضرات اس کو بڑے زور وشور سے بار بار بیان کرتے هیں ، لمبے چوڑے بیانات وتقریریں کرتے هیں ،اور اس پر کتابچے اور رسائل لکهتے هیں اور فقہ حنفی کو حدیث کے مخالف ثابت کرنے کی ناکام ونامراد کوشش کرتے هیں ،
اور اس طرح ان وساوس کی ترویج وتشہیر کی کوشش کرتے هیں ، حالانکہ اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل بهی هوتی هے لیکن یہ اس کوچهپا دیتے هیں اس کا بالکل ذکرهی نہیں کرتے ، اور اگرکوئ اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل ذکر کربهی دے تو اس پر " ضعیف یا موضوع " کا لیبل لگا دیتے هیں ،
اب ایک عام آدمی کو فقہی مسائل اوراحادیث کے علوم کی کیا خبرهے ، خود فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے ان نام نہاد شیوخ کو کچهہ پتہ نہیں لیکن بس
" اندهوں میں کانا راجہ " والی بات هے ، لہذا اگر یہ وسوسہ وه قبول کرلے توپهر صرف یہی نہیں کہ وه فقہ حنفی کی مخالفت پرکمربستہ هوجاتا هے بلکہ اپنی گذشتہ زندگی پر توبہ واستغفار بهی کرتا هے ،
اور اپنے زعم میں بہت خوش هوتا هے کہ الحمد لله اب میں توحید وسنت کی دولت سے مالا مال هوگیا هوں ، اب مجهے صراط مستقیم مل گیا هے ، حالانکہ اس جاهل کو کیا پتہ کہ جس وسوسہ کی بنا پر میں " مذهب جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " قبول کر رها هوں یہ کوئ مذهب نہیں هے ، یہ تو انگریز کی سیاسی ضرورت تهی جس کو چند خوش نما نعروں کے ساتهہ هندوستان میں وجود میں لایا گیا ، جیسا کہ قادیانیت ، پرویزیت ، نیچریت ، خاکساریت ، بریلویت ، غیرمقلدیت ، سب استعمار اور اعداء اسلام کی حاجت وضرورت کا دوسرا نام هے هر فرقہ کے بانیان کو علماء حق علماء احناف علماء دیوبند کو بدنام کرنے اوران کی تحریک کو کمزورکرنے کے لیئے مختلف کام ومحاذ سپرد کیئے گئے ،
اور ان فرقوں کے بانیان کو خوب معلوم هوتا هے کہ ان کی یہ جماعت یہ کس شعبده گر کی صنعت وکاریگری کی شاهکار هے ، مگر بعد میں آنے والے جاهل اس کو مذهب ومسلک کا درجہ دے دیتے هیں ، اور اس کی حمایت وطرفداری پر مرنے مارنے پرتیارهوجاتے هیں ، جیسا کہ " رافضیت وشیعیت " کو دیکهہ لیجیئے جو ابن سبا یہودی کی اسلام کے خلاف جاری کرده ایک تحریک
تهی ،

لیکن اس کا طریقہ کار یہ تها کہ ساده لوح عوام کے سامنے پہلے چند خوشنما نعرے رکهے گئے جیسے ( عقیده امامت ، حق خلافت حضرت علی کے لیئے ،
حُب اهل بیت ، ائمہ اهل بیت کی معصومیت وغیره ) لیکن وقت گذرنے کے ساتهہ ساتهہ ( شیعیت ورافضیت ) ایک مستقل مذهب کی صورت میں سامنے آتا رها ، اور جاهل لوگوں نے پوری دیانت داری کے اس مذهب کی تبلیغ وعمل کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج تک قائم هے ، بالکل یہی حال " جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " کا بهی هے جواستعماری قوتوں کا لگایا هوا ایک پودا هے جسے هندوستان میں چند لوگوں نے پانی دے کر پروان چڑهایا ، لیکن ساده لوح ناواقف عوام نے اس کو ایک شجره طوبی سمجهہ کر اس کے سایہ کو جنت کا سایہ سمجهہ لیا ، الله تعالی عوام کو اس فرقہ جدید کی حقیقت سمجهنے کی توفیق دے ،
لہذا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جہلاء کا یہ وسوسہ بالکل باطل هے کہ فقہ حنفی اور حدیث میں ٹکراو هے ، پهر اس وسوسہ کو عوام کے دماغ میں ڈالنے کے لیئے طریقہ یہ اختیار کرتے هیں کہ مثلا فقہ حنفی کی کتب " شامی ، عالمگیری ، درمختار ، هدایه ، وغیره سے کوئ مسئلہ لیں گے بعض دفعہ مسئلہ پورا لیتے هیں اور بعض دفعہ اس میں بهی دجل کرتے هیں تو پهر بظاهر اس فقہی مسئلہ کے معارض ومخالف حدیث پیش کرتے هیں اور پهر عوام سے کہتے هیں کہ اب تمہاری مرضی هے کہ فقہ حنفی کے پیچهے جاو یا حدیث رسول کی پیروی کرو ، اب ایک عام آدمی کو علم حدیث وعلم فقہ اور اس کی ساری تفصیلات کا کیا پتہ " شامی ، عالمگیری ، درمختار ، هدایه ، وغیره کتب اس نے کہاں دیکهنے هیں اور اگردیکهہ بهی لے تو اس کو جہالت کی وجہ سے سمجهہ بهی نہ آئے ، تواس اندازسے اس وسوسہ کو عوام کے دلوں میں ڈالا جاتا هے ،
اوراس طرز سے عوام کو اپنی اندهی تقلید پرمجبور کرتے هیں ،
اور آپ کو معلوم هونا چائیے کہ " جدید فرقہ اهل حدیث یا غیرمقلدیت " فقہ حنفی کی مخالفت وعداوت استعمار کے حکم کے ساتهہ ساتهہ " شیعہ وروافض " کی تقلید میں کرتے هیں ، پاک وهند میں فقہ حنفی کے خلاف پہلی کتاب
( استقصاء الافحام ) لکهی گئ اس کتاب کا مولف حامد حسین کنتوری ایک غالی قسم کا شیعہ تها ،
اور بعد میں فقہ حنفی کے خلاف جو بهی کتابیں لکهی گئ سب اسی کتاب کا چربہ هیں ، اور حتی کہ یہی بات جدید فرقہ اهل حدیث کے سرکرده عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے بهی کہی هے کہ امام الائمہ ابوحنیفہ علیہ الرحمه پرجواعتراضات ومطاعن اخبا ر اهل الذکر ( جدید فرقہ اهل حدیث اور غیرمقلدین کا اخبار ) میں مشتہرکیئے گئے هیں ، یہ سب کے سب هذیانات بلا استثناء اکاذیب وبہتانات هیں ، جن کا مآخذ زمانہ حال کے معترضین کے لیئے حامد حسین شیعی لکهنوی کی کتاب ( استقصاء الافحام ) کے سوا اور کوئ کتاب نہیں هے ، اور اس کتاب امام ابوحنیفہ علیہ الرحمه کے علاوه کسی سُنی امام بخاری ، مالک وغیره کو نہیں چهوڑا گیا ، ایک ایک کا نام لے کر کئ کئ ورقوں بلکہ جزوں کو سیاه کرڈالا ، ( دیکهیئے فقیرمحمد جہلمی کی کتاب ، السیف الصارم )
اس کے بعد دوسری کتاب ( ظفرُالمبین فی رد مُغالطات المُقلدین ) لکهی گئ ، اس کے مولف کا نام هری چند بن دیوان چند تها جو بعد میں مسلمان هوکر غلام محی الدین کے نام سے مشہور هوا ، اس آدمی کی علمی استعداد کے متعلق ( جدید فرقہ اهل حدیث ) کے ترجمان مولوی محمد حسین بٹالوی فرماتے هیں ،
بٹالوی صاحب نے پہلے مولوی محمد احسن امروهی قادیانی سابق غیرمقلد پر رد کرتے هیں پهر صاحب ( ظفرُالمبین ) کے بارے فرمایا کہ وه بے چاره میزان ، منشعب ( علم صرف چهوٹے رسالے هیں ) بهی پڑهے نہ تهے اور ماضی مضارع کے معنی نہ جانتے تهے ( دیکهیئے مزید تفصیل ، اشاعت السنہ ، جلد 14 شماره 12)
( ظفرُالمبین ) کے بعد فقہ حنفی کے خلاف کتاب ( حقیقت الفقه ) لکهی گئی ، اس کتاب کا مولف محمد یوسف جے پوری هے ، اس کتاب میں جے پوری نے دجل وتلبیس ، جهوٹ ، خیانت ، دهوکہ وفریب کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے هیں ،
اس کے بعد ( شمع محمدی ، درایت محمدی ، سبیل الرسول وغیره ) کتابیں لکهی گئ اور یہ سلسلہ آج تک جاری هے ، اور اب تو چونکہ میڈیا کی ترقی کا دور هے تو یہ لوگ کذب وفریب و وساوس پهیلانے میں تمام ممکنہ ذرائع استعمال کر رهے هیں ، لیکن جهوٹ دهوکہ فریب وغیره مذموم ذرائع کے لیئے من جانب الله کوئ ترقی وثبات نہیں ملا کرتی ، زیاده زیاده سے چند جاهل عوام کو اس کے ذریعہ سے زیرکرلیا جاتا هے ،
حاصل کلام یہ هے کہ فقہ حنفی کا کوئ مفتی بہ قول اور معمول بہا مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں هے ، اور الحمد لله امام اعظم ابوحنیفہ کا اصول دیکهیئے
أصول مذهب الإمام الأعظم أبوحنيفة
"إني آخذ بكتاب الله إذا وجدته، فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات، فإذا لم أجد في كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت، ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم. فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن المسيب (وعدّد رجالاً)، فلي أن أجتهد كما اجتهدوا ".
سبحان الله الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمہ الله کے مذهب کے اس عظیم اصول کوپڑهیں ، فرمایا میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا هوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا هوں ، اور اگر كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا هوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باهر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا هوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۰
محترم بهائیو یہ هے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی قائم هے ، سوائے جاهل کوڑمغز اور معاند متعصب کے اور کون هے جو اس اصول پر قائم شده مذهب حنفی کی عمارت کو قرآن وسنت کے خلاف کہے گا ؟
تو امام اعظم کے نزدیک قرآن مجید فقہی مسائل کا پہلا مصدر هے
پهردوسرا مصدر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ضعیف حدیث کو بهی قیاس شرعی پرمقدم کرتے هیں جب کہ دیگرائمہ کا یہ اصول نہیں هے ،
پهر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ کرام اقوال وفتاوی هیں ،
اس کے بعد جب تابعین تک معاملہ پہنچتا هے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ،
کیونکہ امام اعظم خود بهی تابعی هیں ،
جب کہ دوسری طرف فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو دیکهیں تو ان کا اصول یہ هے صحابہ کرام کا فہم اور اقوال وفتاوی واجماعات کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، لیکن اس کے باجود بهی وسوسہ یہ پهیلاتے هیں کہ فقہ حنفی حدیث کے مخالف هے ، اس وسوسہ کے تحت بات طویل هوگئ ، الله تعالی سب کو صحیح سمجهہ دے اور اهل سنت والجماعت علماء کی راهنمائ میں قرآن وحدیث پرعمل کی توفیق دے
شــاد بــاد و شــاد ذى اے ســرزمين ديــوبند

پورے عـالـَم ميں تو نے کیا اســـلام کا جهنڈا بلند

2 comments:

  1. یہ تمام خصلیتیں تو آپ کا مضمون دیکھ کر آپ کے اندر بھی محسوس ہوتی ہیں اب اسکا کیا علاج کیا جائے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جب کوئی جواب نہیں بنتا ہے تو لوگ ایسے ہی باتیں کرتے ہیں

      Delete